کتاب: اصول تفسیر - صفحہ 82
کی وضاحت کے بارے میں سوال نہیں کیا جائے گا کیونکہ ان تک پہنچنا ( اورجواب کے لیے ان کی کیفیت کا ادراک کرنا) متعذر ہے ‘‘۔
دوسری قسم : نسبی :
وہ جو بعض لوگوں کو چھوڑ کر بعض دوسروں پر مشتبہ ہو۔ تو یہ پختہ علم والوں کو معلوم ہوگا ،کم علم والوں کو نہیں ۔ اس نوع کی وضاحت اور بیان کے بارے میں پوچھا جاسکتا ہے ‘ کیونکہ اس تک پہنچنا ممکن ہے ۔ کیونکہ قرآن میں کوئی ایسی چیز نہیں پائی جاتی جس کا معنی لوگوں کے لیے واضح نہ ہوتا ہو۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
{ہَـذَا بَیَانٌ لِّلنَّاسِ وَہُدًی وَمَوْعِظَۃٌ لِّلْمُتَّقِیْنَ} (آل عمران:۱۳۸)
’’ یہ لوگوں کے لیے بیانِ صریح اور اہلِ تقویٰ کیلئے ہدایت اور نصیحت ہے۔‘‘
اور فرمایا:
{وَنَزَّلْنَا عَلَیْکَ الْکِتَابَ تِبْیَاناً لِّکُلِّ شَیْء ٍ وَہُدًی وَرَحْمَۃً وَبُشْرَی لِلْمُسْلِمِیْنَ } (النحل:۸۹)
’’ اور ہم نے تم پر (ایسی) کتاب نازل کی ہے کہ (اس میں) ہر چیز کا بیان ہے اور مسلمانوں کیلئے ہدایت اور رحمت اور بشارت ہے۔‘‘
نیز فرمان ِ الٰہی ہے :
{فَإِذَا قَرَأْنَاہُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَہُ٭ثُمَّ إِنَّ عَلَیْنَا بَیَانَہُ } (القیامۃ:۱۸تا۱۹)
’’جب ہم وحی پڑھا کریں تو تم (اس کو سنا کرو اور) پھر اسی طرح پڑھا کرو۔ پھر اس (کے معانی) کا بیان بھی ہمارے ذمے ہے۔‘‘
اور فرمایا:
{ یَا أَیُّہَا النَّاسُ قَدْ جَائَ کُم بُرْہَانٌ مِّن رَّبِّکُمْ وَأَنزَلْنَا إِلَیْکُمْ نُوراً مُّبِیْناً} (النساء:۱۷۴)