کتاب: اصول تفسیر - صفحہ 78
’ اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کا (کلام) ہوتا تو اس میں (بہت سا) اختلاف پاتے۔‘‘ اور جو اس میں متشابہ آیا ہے ‘اس محکم پر رد کرتے ہیں ۔ تاکہ سارے کا سارا محکم ہوجائے۔ [1] پہلی مثال کے متعلق کہتے ہیں : بیشک اللہ تعالیٰ کے دو حقیقی ہاتھ ہیں جیسے اللہ تعالیٰ کی شان اور اس کے جلال وعظمت کے لائق ہیں؛وہ مخلوق کے ہاتھوں سے مشابہ نہیں۔ جیساکہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے ‘ مگر مخلوق میں سے کسی ذات سے مماثلت نہیں رکھتی۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : { لَیْسَ کَمِثْلِہِ شَیْء ٌ وَہُوَ السَّمِیْعُ البَصِیْرُ} (الشوریٰ:۱۱) ’’اس جیسی کوئی چیز نہیں اور وہ دیکھنے والا اور سننے والا ہے۔‘‘ دوسری مثال کے متعلق کہتے ہیں: بیشک نیکی اور برائی دونوں اللہ تعالیٰ کی تقدیر سے ہیں۔لیکن نیکی کا سبب اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر فضل و کرم ہے ۔ اور برائی کا سبب انسان کا فعل ہے ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : {وَمَا أَصَابَکُم مِّن مُّصِیْبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتْ أَیْدِیْکُمْ وَیَعْفُو عَن کَثِیْرٍ} (الشوری:۳۰) ’’اور جو مصیبت تم پر واقع ہوتی ہے سو تمہارے اپنے افعال سے اور وہ بہت سے گناہ تو معاف ہی کر دیتا ہے۔‘‘
[1] ) یہاں پر ایک اہم مسئلہ کا بیان ضروری ہے ۔ کہ متشابہ آیات میں اکثر اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات کے بار میں ٹھوکر کھائی ہے ۔ لوگ اللہ تعالیٰ کی صفات کے بارے میں تین قسموں میں بٹ گئے ‘ ان کی تفصیل یہ ہے: ممثلہ: ان کا کہنا یہ ہے کہ اللہ نے ہمیں اس لب و لہجہ میں مخاطب کیا ہے جو ہم سمجھتے ہیں اور جانتے ہیں ۔جس چیز کو ہم جانتے ہیں ‘ وہ مخلوقات کی صفات ہیں ‘ تو اللہ کی صفات بھی اس کے مماثل ہیں۔ مؤولہ : کہتے ہیں بیشک ظاہر ِآیت ایک مثال بیان کی گئی ہے ۔ تو ہم اسے اس کے ظاہری معنی میں تاویل کرکے دوسرے معنی میں بدل دیں گے ‘ سو ہاتھ سے مراد اس کی قدرت اور نعمت ہوگی۔اہل سنت : کہتے ہیں کہ: بیشک اللہ تعالیٰ نے جو چیز بیان کی ہے وہ اپنی حقیقت پر ہے ‘مگر اس کی کوئی مثال نہیں بیان کیا جاسکتی ؛ اور نہ ہی کیفیت بیان ہوسکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی یہ صفات ثابت ہیں ‘ مگر وہ ہر لحاظ سے ذات باری کی طرح جداگانہ اور یکتا ہیں ۔