کتاب: اصول تفسیر - صفحہ 75
نیز فرمایا: {وَ أَحَلَّ اللّٰهُ الْبَیْعَ} (البقرہ:۲۷) ’’ اور اللہ تعالیٰ نے خرید و فروخت کو حلال کیا ہے۔‘‘ اور فرمانِ الٰہی ہے : { حُرِّمَتْ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃُ وَالْدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِیْرِ وَمَا أُہِلَّ لِغَیْرِ اللّٰهِ بِہِ } (المائدہ:۳) ’’ تم پر مرا ہوا جانور اور (بہتا) لہو اور سؤر کا گوشت اور جس چیز پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام پکارا جائے۔‘‘ اور تشابہ کا معنی یہ ہے کہ آیت کا معنی مشتبہ اور خفی ہو، اس طرح سے کہ اس سے وہم کرنے والے کو ایسا وہم ہو جو اللہ تعالیٰ، یا اس کی کتاب یا اس کے رسول کے ساتھ مناسب نہیں ہے۔جب کہ اس سے پختہ علم والا عالم اس سمجھ کے خلاف سمجھتا ہے ۔ اس کی مثال جو اللہ تعالیٰ سے متعلق وہم کرنے والے کو وہم ہو‘ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : {بَلْ یَدَاہُ مَبْسُوطَتَانِ } (المائدہ:۶۴) ’’بلکہ اُس کے دونوں ہاتھ کھلے ہیں۔‘‘ یہ کہ بیشک اللہ تعالیٰ کے دو ہاتھ جو مخلوق کے ہاتھوں کے مماثل ہیں ۔نعوذ باللّٰه۔[1] کتاب اللہ سے متعلق تناقض اور باہم تکذیب کے وہم کی مثال : فرمانِ الٰہی ہے : {مَّا أَصَابَکَ مِنْ حَسَنَۃٍ فَمِنَ اللّٰهِ وَمَا أَصَابَکَ مِن سَیِّئَۃٍ فَمِن نَّفْسِکَ} (المائدہ:۷۹)
[1] ) اس وہم کو اس طرح ختم کر سکتے ہیں کہ : ’’ بیشک قرآن نے ہمیں مخاطب کیا ہے ۔ہماری سمجھ اور علم کے مطابق ہوتا ہے۔ ہم یہی سمجھتے ہیں کہ جس طرح انسان کے دو ہاتھ ہیں خالق کے بھی بالکل ایسے ہی دو ہاتھ ہوں گے۔ جب کہ معاملہ ایسا نہیں ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے ہاتھوں کی صفت ثابت ہے ‘ مگر جس طرح ہم اللہ تعالیٰ کی ذات کے لیے کوئی مثال یاکیفیت بیان نہیں کرسکتے ؛ ایسے ہی اللہ تعالیٰ کی صفات کے لیے بھی کوئی مثال یا کیفیت کی نہیں کرسکتے ؛ اللہ تعالیٰ اپنی ذات کی طرح صفات میں بھی ان مثالوں اور کیفیات سے اور مشابہت سے بری ہے ۔