کتاب: اصول تفسیر - صفحہ 73
دوسری قسم : تشابہ عام: [1] جس سے سارے قرآن کو موصوف کیا گیا ہے ، جیسا کہ فرمانِ الٰہی ہے : {اللّٰهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِیْثِ کِتَاباً مُّتَشَابِہاً مَّثَانِیَ تَقْشَعِرُّ مِنْہُ جُلُودُ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّہُمْ ثُمَّ تَلِیْنُ جُلُودُہُمْ وَقُلُوبُہُمْ إِلَی ذِکْرِ اللّٰهِ } (الزمر:۲۳) ’’ اللہ نے نہایت اچھی باتیں نازل فرمائی ہیں ؛ ایسی کتاب (جس کی آیتیں باہم) ملتی جلتی (ہیں) اور دہرائی جاتی ہیں جولوگ اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں ان کے بدن کے (اس سے) رونگٹے) کھڑے ہ و جاتے ہیں پھر ان کے بدن اور دل نرم (ہو کر) اللہ کی یاد کی طرف (متوجہ) ہوجاتے ہیں ۔‘‘ اس تشابہ کا معنی یہ ہے کہ بیشک قرآن سارے کا سارا کمال، عمدگی، اور اپنی بزرگ اور اعلی غایات کے لحاظ سے آپس میں ایک دوسرے کے مشابہ ہے ۔فرمان الٰہی ہے : {أَفَلاَ یَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ وَلَوْ کَانَ مِنْ عِندِ غَیْرِ اللّٰهِ لَوَجَدُواْ فِیْہِ اخْتِلاَفاً کَثِیْراً } (النساء:۸۲) ’’بھلا یہ قرآن میں غور کیوں نہیں کرتے؟ اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کا (کلام) ہوتا تو اس میں (بہت سا) اختلاف پاتے۔‘‘[2] تیسری قسم : بعض خاص احکام اور بعض خاص تشابہ( جنہیں صرف وہی لوگ سمجھتے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے پختہ علم عطا کیا ہو) : جیساکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : {ہُوَ الَّذِیَ أَنزَلَ عَلَیْکَ الْکِتَابَ مِنْہُ آیَاتٌ مُّحْکَمَاتٌ ہُنَّ أُمُّ
[1] ) یہ کہ قرآن اپنے کمال ‘ عمدگی ‘ احکام ؛ اخبار اور اتقان کے لحاظ سے آپس میں متشابہ ہے ۔ [2] ) (شیخ رحمہ اللہ نے آیت کو ’’وَلَوْ کَان‘‘ کے بعد سے لکھا تھا میں نے ضرورت فہم کے لیے مکمل آیت لکھ دی ہے۔ (مترجم)