کتاب: اصول تفسیر - صفحہ 57
وَاتَّبَعَ ہَوَاہُ فَمَثَلُہُ کَمَثَلِ الْکَلْبِ إِن تَحْمِلْ عَلَیْہِ یَلْہَثْ أَوْ تَتْرُکْہُ یَلْہَث ذَّلِکَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ کَذَّبُواْ بِآیَاتِنَا فَاقْصُصِ الْقَصَصَ لَعَلَّہُمْ یَتَفَکَّرُونَ } (الاعراف:۱۷۵تا۱۷۶)
’’اور ان کو اُس شخص کا حال پڑھ کر سنا دو جس کو ہم نے اپنی آیتیں عطا فرمائیں؛ تو اُس نے اُن کوچھوڑ دیا پھر شیطان اُس کے پیچھے لگا تو وہ گمراہوں میں سے ہو گیا ۔ اور اگر ہم چاہتے تو اُن آیتوں سے اس کو بلند کر دیتے مگر وہ تو پستی کی طرف مائل ہو گیا اور اپنی خواہش کی اتباع کی؛ تو اُس کی مثال کتے کی سی ہے اگر سختی کرو تو زبان نکالے رہے اور یونہی چھوڑ دو تو بھی زبان نکالے رہے یہی مثال ان لوگوں کی ہے جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا تو (ان سے) یہ قصہ بیان کر دو تاکہ وہ فکر کریں۔‘‘
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’یہ بنی اسرائیل کا ایک آدمی تھا ۔‘‘
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’ وہ اہل ِ یمن کا ایک آدمی تھا۔‘‘
اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’’ وہ اہل ِ بلقاء کا ایک آدمی تھا۔‘‘
ان اقوال میں جمع ایسے ممکن ہے کہ اس آیت کو ان تمام پر محمول کیا جائے ۔ کیونکہ یہ آیت بغیر تضاد کے ان سب معانی کا احتمال رکھتی ہے ۔ تو ان میں سے ہر ایک قول جو ذکر کیا گیا ہے وہ بطور ِ مثال کے ہوگا۔
اس کی دوسری مثال اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے :
{وَکَأساً دِھَاقاً} (النباء:۳۴)
’’ اورجام ہوں گے چھلکتے ہوئے۔‘‘
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’ دھاقا‘‘ کا معنی ہے بھرا ہوا ۔
مجاہد فرماتے ہیں: ’’ اس سے مراد ہے متابعت ( یعنی ایک کے بعد دوسرا گلاس )۔
حضرت عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ اس سے مراد ہے : صاف ۔‘‘
ان اقوال میں آپس میں کوئی ٹکراؤ نہیں ہے ۔ کیونکہ آیت ان سب کا احتمال رکھتی ہے ۔