کتاب: اصول تفسیر - صفحہ 52
دیگر محدثین نے حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے۔[1] ثالثاً : صحابہ کرام کا کلام : صحابہ کاکلام ؛خاص طور پر ان میں سے جو اہل علم اور تفسیر کا اہتمام کرنے والے ہیں ۔ کیونکہ قرآن ان کی زبان میں اور ان کے زمانہ میں نازل ہوا ۔ اور اس لیے بھی انبیاء کرام علیھم السلام کے بعد حق کی تلاش میں سب سے سچے لوگ تھے ۔ اور خواہشات سے بہت ہی زیادہ محفوظ تھے۔اور ان مخالفات سے بہت ہی پاک تھے جو کسی انسان کے اور حق بات کی توفیق کے درمیان حائل ہوتے ہیں۔ اس کی مثالیں بہت ہی زیادہ ہیں ‘ ان میں سے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : {وَإِن کُنتُم مَّرْضَی أَوْ عَلَی سَفَرٍ أَوْ جَائَ أَحَدٌ مِّنْکُم مِّن الْغَآئِطِ أَوْ لاَمَسْتُمُ النِّسَائِ} (النساء:۴۲) ’’ اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا کوئی تم میں سے بیت الخلاء سے ہو کر آیا ہو یا تم نے عورتوں کو چھوا ہو (ہم بستر ہوئے ہو)۔‘‘ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے یہ صحیح سند کے ساتھ ثابت ہے کہ وہ چھونے کی تفسیر ’’ جماع ‘‘ سے کرتے تھے۔[2] رابعاً : تابعین کا کلام : یہ وہ لوگ ہیں جنہیں نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے تفسیر سیکھنے کا اہتمام کیا۔کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بعد تابعین رحمۃ اللہ علیھم لوگوں میں سے سب سے بہتر ہیں ۔ اور ان کے بعد خواہشات ِ نفس سے سب سے زیادہ محفوظ لوگ ہیں ۔ اور اس وقت تک عربی زبان زیادہ تبدیل نہیں ہوئی تھی۔یہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بعد قرآن کے سمجھنے میں حق کے قریب ترین لوگ تھے۔
[1] ) مسلم (۱۹۱۷) و أحمد (۴/۱۵۶) و أبو داؤد (۲۵۱۴ ) والترمذي (۳۰۸۳) و ابن ماجہ (۲۸۱۳)۔ [2] ) اسے امام طبری رحمہ اللہ نے روایت کیا ‘ (۵/۱۰۱) وعبد الرزاق ( ۱/۱۳۴) وابن أبی شیبہ (۱/۱۶۶- ۱۶۷) والبہیقی (۱/۱۲۵) و (۷/ ۴۲۴-۴۲۵) وسعید بن منصور في تفسیرہ (۶۴۰-۶۴۱) وغیرہم ۔