کتاب: اصول تفسیر - صفحہ 50
قرآن کریم کی تفسیر میں بذیل امور کی طرف رجوع کیا جائے گا : اولاً : اللہ تعالیٰ کا کلام : سو قرآن کی تفسیر قرآن سے ہی کی جاتی ہے ۔کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہی اس کلام کو نازل کیا ہے اور وہ اس کے معانی کو بہت خوب(اور سب سے زیادہ ) جاننے والا ہے ۔ اس کی بہت ساری مثالیں ہیں ‘ ان میں سے : ۱: اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: { أَلا إِنَّ أَوْلِیَاء اللّٰهِ لاَ خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلاَ ہُمْ یَحْزَنُونَ} (یونس:۶۲) ’’سن رکھو کہ جو اللہ کے دوستوں کونہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے‘‘ ۔ سو اس کے بعد آنے والی آیت میں اللہ تعالیٰ نے خود اولیاء اللہ کی تفسیر کی ہے ، فرمایا: {الَّذِیْنَ آمَنُواْ وَکَانُواْ یَتَّقُونَ} (یونس:۶۳) ’’ (یعنی متقی وہ ہیں ) جو ایمان لائے اور پرہیزگار رہے ۔‘‘ ۲: اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: { وَمَا أَدْرَاکَ مَا الطَّارِقُ} (الطارق:۲) ’’اور تم کو کیا معلوم کہ طارق ( رات کو آنے والا) کیا ہے؟‘‘ اس کے ساتھ والی آیت میں اللہ تعالیٰ نے طارق کی تفسیر بیان کی ہے ، فرمایا: {النَّجْمُ الثَّاقِبُ} (الطارق:۳) ’’ وہ تارا ہے چمکنے والا۔‘‘ ۳: اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : {وَالْأَرْضَ بَعْدَ ذَلِکَ دَحَاہَا} (النازعات:۳۰) ’’ اور اس کے بعد زمین کو پھیلا دیا۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے اس کے ساتھ والی دو آیات میں (دحاھا)زمین پھیلانے کی تفسیر بیان کی ہے ‘ فرمایا: