کتاب: اصول تفسیر - صفحہ 37
۴: تشریع میں تدرج یہاں تک کہ کمال کے مرتبہ کو پہنچ جائے۔ جیساکہ شراب کے احکام والی آیات میں ہے ، لوگ جس پر بڑھے پلے تھے ‘ اور اس سے الفت رکھتے تھے ۔ یہ بات بہت مشکل تھی کہ ایک دم ہی انہیں شراب سے بالکل منع کردیا جائے ۔ تو پہلے اس بارے میں یہ آیت نازل ہوئی : {یَسْأَلُونَکَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ قُلْ فِیْہِمَا إِثْمٌ کَبِیْرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُہُمَا أَکْبَرُ مِن نَّفْعِہِمَا} (البقرہ:۲۱۹) ’’آپ سے شراب اور جوئے[1] کا حکم پوچھتے ہیں؟ فرمادیں:اُن میں بڑا نقصان ہے اور لوگوں کیلئے کچھ فائدے بھی ہیں مگر اُن کا نقصان فائدہ سے کہیں زیادہ ہیں ۔‘‘ اس آیت میں لوگوں کو ذہنی طور پر شراب کی حرمت قبول کرنے کے لیے تیار کیا گیا ہے۔ کیونکہ عقل اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ ایسی چیز کا ارتکاب نہ کیا جائے جس کا گناہ اس کے فائدہ سے بڑھ کر ہو۔پھر اس کے بعد دوسری بار یہ آیت نازل ہوئی : {یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ تَقْرَبُواْ الصَّلاَۃَ وَأَنتُمْ سُکَارَی حَتَّیَ تَعْلَمُواْ مَا تَقُولُونَ} (النساء:۴۳) ’’ مومنو! جب تم نشے کی حالت میں ہو تو جب تک (ان الفاظ کو) جو منہ سے کہو سمجھنے (نہ) لگو نماز کے پاس نہ جاؤ ۔‘‘ سو یہ آیت بعض اوقات میں شراب ترک کرنے کی ایک مشق تھی جو نماز کے اوقات تھے ۔ پھر اس کے بعد تیسرا حکم نازل ہوا ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
[1] ) قرآن میں جوئے کانام ’’ مَیْسر‘‘ رکھا گیا ہے ؛ جس کا معنی ہے ’’ آسانی ‘‘ یعنی اس ایک فریق بہت آسانی سے فریق ثانی پر غالب آکر بہت جلد نفع حاصل کر لیتا ہے۔ اس لیے قاعدہ یہ ہے کہ: ’’ ہر وہ معاملہ جس میں انسان یا تو بلا جہد فائدہ حاصل کرنے والا ہو‘ یا بلا مقصد نقصان اٹھانے والا ہو ‘ تو وہ جوا کہلائے گا ‘ اور وہ حرام ہے۔ کاروباری شراکت داری شرعی اصولوں کے مطابق ‘ اس سے مستثنیٰ ہے ۔