کتاب: اصول تفسیر - صفحہ 30
{إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِن شَعَآئِرِ اللّٰهِ فَمَنْ حَجَّ الْبَیْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْہِ أَن یَطَّوَّفَ بِہِمَا } (البقرہ:۱۵۸) ’’بیشک (کوہِ) صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں تو جو شخص خانہ کعبہ کا حج یا عمرہ کرے اُس پر کچھ گناہ نہیں کہ دونوں کا طواف کرے ۔‘‘ یعنی ان کے درمیان سعی کرے ، کیونکہ ظاہری طور پر اللہ تعالیٰ کا فرمان : {فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْہِ }’’اُس پر کچھ گناہ نہیں ‘‘ سے مراد یہ ہے کہ صفا و مروہ کے درمیان سعی کرنا مباحات کی اقسام میں سے ہے ۔ صحیح بخاری میں ہے حضرت عاصم بن سلیمان رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ بیشک میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہسے صفا و مروہ کے متعلق پوچھا : تو وہ فرمانے لگے :ہم صفا اور مروہ میں سعی کرنے کو جاہلیت کا کام سمجھتے تھے۔ اسلام آنے کے بعد ہم ان کے درمیان سعی کرنے سے رک گئے ۔ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل کیں : {إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِن شَعَآئِرِ اللّٰهِ…إلی قولہ … أَن یَطَّوَّفَ بِہِمَا} ’’بیشک صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں …دونوں کا طواف کرے ۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ گناہ کی نفی کرنے سے مراد اصل میں سعی کے حکم کا بیان نہیں ہے۔ بلکہ اس سے مراد اس سنت پر قائم رہنے سے حرج کی نفی ہے (لوگ اسلام لانے کے بعد اس میں حرج سمجھتے تھے )۔ کیونکہ وہ اسے جاہلیت کا کام سمجھتے تھے۔ اور سعی کے حکم کی اصل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے : { مِن شَعَآئِرِ اللّٰهِ…} ’’( صفا اور مروہ )اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں۔‘‘[1] عمومِ لفظ اور خصوص سبب : جب آیت کسی خاص سبب کی وجہ سے نازل ہوئی ہو ، اور اس کا لفظ عام ہو ، اس کا حکم اس کے سبب کو اور ہر اس چیز کو شامل ہوتا ہے جو اس لفظ کے معانی اور مفاہیم میں شامل ہو۔ کیونکہ قرآن تمام امت کے لیے عام تشریع کے طور پر نازل ہوا ہے اس وجہ سے اعتبارعموم لفظ
[1] ) بخاری (۴۴۹۶) مسلم (۱۲۷۸)، لیکن اس میں سیاق مختلف ہے۔