کتاب: اصول تفسیر - صفحہ 29
لِنُثَبِّتَ بِہِ فُؤَادَکَ وَرَتَّلْنَاہُ تَرْتِیْلاً } (الفرقان:۳۲) ’’اور کافر کہتے ہیں کہ اس پر قرآن یکبارگی کیوں نہ اتارا گیا؟ اس طرح اس لئے اتارا گیاکہ اس سے آپ کے دل کو قائم رکھیں اور اسی واسطے ہم اس کو ٹھہر ٹھہر کرپڑھتے ہیں۔‘‘ ایسے ہی آیات افک جن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حرمت کا دفاع ہے ، اور اس چیز کی طہارت اور پاکیزگی بیان کی گئی ہے جو الزام تراشوں نے اپنی طرف سے گھڑ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کر رکھی تھی۔ ۳: اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندوں کے غم کے ازالہ اور تنگی کے خاتمہ کا بیان: اس کی مثال:آیت تیمم ہے ۔ صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا ہار کھوگیا۔ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی سفر میں تھیں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس ہار کی تلاش میں لگ گئے ۔ اور لوگ بھی پیاسے -بغیر پانی کے - اس ہار کو تلاش کرنے لگ گئے۔ سو اس بات کی شکایت حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے کی گئی۔ (یہ ایک لمبی حدیث ہے ، جس میں ہے )۔ پھر اللہ تعالیٰ نے تمیم کے احکام کی آیات نازل کیں ۔ سو لوگوں نے تیمم کیا ۔حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’اے آل ِ ابو بکر ! یہ آپ کے گھرانے کی پہلی برکت نہیں ہے ۔‘‘(یعنی اس سے پہلے اور بھی خیر و برکات اس گھرانے کی وجہ سے عام مسلمانوں کو حاصل ہوئی ہیں )۔ پوری حدیث بخاری میں تفصیل کے ساتھ ہے۔[1] ۴: آیت کی درست سمجھ : اس کی مثال اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے :
[1] ) بخاری (۳۳۴) مسلم (۳۶۷)۔ فائدہ: ’’ پہلی برکت نہیں ہے‘‘۔ یہاں پر ایک عقیدہ کا مسئلہ ہے کہ : ’’ یہ تعبیر اس بات پر دلیل ہے کہ کسی صالح شخص سے یہ کہا جائے کہ یہ آپ کی برکت ہے ‘اگروہ شخص خیر کے حصول کا سبب بنا ہو‘ اور خود زندہ موجود ہو۔ اور اگر وہ مرگیا ہو ؛ یا اس کے زمانہ میں یہ خیر نہ ملی ہو‘ یا وہ اس خیر کا سبب نہ ہو تو اس کے لیے ایسے کہنا جائز نہیں ہے ۔