کتاب: اصول تفسیر - صفحہ 25
ابتدائی و سببی نزول قرآن نزول قرآن مجید کی تقسیم دو طرح کی ہے : پہلی قسم : ابتدائی : یہ وہ قسم ہے جس سے پہلے کوئی ایسا سبب نہ پیش آیا ہو جو ان آیات کے نزول کا تقاضا کرے ۔ قرآن کریم کی اکثر آیات اسی قسم سے تعلق رکھتی ہیں ۔ ان ہی میں سے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان بھی ہے : {وَمِنْہُم مَّنْ عَاہَدَ اللّٰهَ لَئِنْ آتَانَا مِن فَضْلِہِ لَنَصَّدَّقَنَّ وَلَنَکُونَنَّ مِنَ الصَّالِحِیْنَ} (التوبہ:۷۵) ’’اور ان میں بعض نے اللہ سے عہد کیا تھا کہ اگر وہ ہمیں اپنی مہربانی سے مال عطا فرمائے گا تو ہم ضرور خیرات کیا کریں گے اور نیکوکاروں میں ہو جائیں گے۔‘‘[1] سو یہ آیات ابتداء میں بعض منافقوں کا حال بیان کرنے کے لیے نازل ہوئیں۔ اور یہ بات جو مشہور ہے کہ یہ آیات حضرت ثعلبہ بن حاطب رضی اللہ عنہ کے بارہ میں نازل ہوئی ہیں، یہ ایک لمبا قصہ ہے جو بعض مفسرین نے بیان کیا ہے ۔ اور بہت سارے واعظین بھی اس کو بیان کرتے ہیں، یہ قصہ ضعیف ہے ، اس کی کوئی اصل اور صحت نہیں ہے۔ ‘‘[2]
[1] ) اس آیت میں مذکور نذر مشروط ہے ‘ اسے نذر معلق کہتے ہیں ۔ نذرِ اطاعت کی دو قسمیں ہیں :مطلق اور معلق ۔ یہ آیت نذر مان کر اس کے خلاف کرنے پر تحذیر ہے ؛ کیونکہ اس کا عقاب سخت ہے ‘ یہ اللہ سے وعدہ خلافی ہے۔ [2] ) یہ قصہ امام طبرانی نے معجم الکبیر (۸/۲۶۰-۲۶۱) میں ‘ امام بیہقی نے دلائل نبوت میں (۵/۲۸۹) ، شعب الایمان میں ۸/ ۳۰۵ پر ‘ ابن ابی حاتم نے تفسیر میں ۴/ ۷۲ پر؛ طبر ی نے تفسیر میں ۱۰/ ۱۸۹ پر؛ اور ابن مردویہ نے بھی نقل کیا ہے ۔ ان سب نے علی بن یزید عن القاسم عن ابی امامۃ کی سند سے نقل کیا ہے ۔ ہیثمی مجمع میں ۷/ ۳۲ پرکہتے ہیں :اس کی سند میں علی بن یزید الہانی متروک الحدیث ہے ۔ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : یہ سند بہت ہی ضعیف ہے ۔ دیکھیے : تخریج الکشاف ۶۱۷۔