کتاب: اصول تفسیر - صفحہ 22
قرآن کی پہلی وحی[1] قرآن کریم میں جو سب سے پہلی وحی نازل ہوئی وہ یقینی طور پر علی الاطلاق سورت علق کی پہلی پانچ آیات تھیں ‘وہ اللہ تعالیٰ کایہ فرمان ہیں : {اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ o خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ o اقْرَأْ وَرَبُّکَ الْأَکْرَمُ o الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ o عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْo} (علق:۱تا۵) ’’ اپنے رب کانام لے کر پڑھو جس نے پیدا کیا۔ جس نے انسان کو خون کی پھٹکی سے بنایا۔ پڑھو اور تمہارا رب بڑا کریم ہے۔ جس نے قلم کے ذریعے سے علم سکھایا [2]۔ او رانسان کو وہ باتیں سکھائیں جن کا اس کو علم نہ تھا۔‘‘ پھر ایک مدت تک وحی رکی رہی ۔ اس کے بعد سورت مدثر کی یہ پہلی پانچ آیات نازل ہوئیں: { یَا أَیُّہَا الْمُدَّثِّرُo قُمْ فَأَنْذِرْ o وَرَبَّکَ فَکَبِّرْ o وَثِیَابَکَ فَطَہِّرْ o وَالرُّجْزَ فَاہْجُرْ} (المدثر:۱تا۵) ’’اے جو کپڑا لپیٹنے والے! اٹھیں اور ڈرائیں اوراپنے پروردگار کی بڑائی کرو ۔ اور اپنے کپڑوں کو پاک رکھو۔ اور ناپاکی سے دُور رہو۔‘‘ صحیح بخاری میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ابتدائے وحی کی بابت روایت ہے؛ فرماتی ہیں:
[1] ) یہ معرفت حاصل کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ تاکہ متقدم اور متأخر کی معرفت حاصل ہوجائے ۔اگر دو آیتوں میں تعارض ہو، او ران میں جمع ممکن نہ ہو، تو متقدم اور متأخر کی معرفت سے ناسخ اور منسوخ کو جان سکیں گے ‘ متقدم منسوخ ہوگا ‘ اور متأخر ناسخ ۔ [2] ) علَّم کے بعد ’’ الکتابۃ ‘‘ محذوف ہے۔ کہ قلم سے لکھنے کی کیفیت سکھائی ۔ قاعدہ : جب معاملہ حذف اور عدم کے درمیان دائر ہو تو اسے عدم حذف پر محمول کیا جائے گا ‘ کیونکہ یہی اصل ہے۔ حذف ضرورت کے تحت ہوتی ہے ۔ ’’ یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حق آگیا اور آپ غار ِ حرا میں تھے۔ سو آپ