کتاب: اصول تفسیر - صفحہ 13
قرآن کریم
قرآن لغت میں ’’ قرأ ‘‘ کا مصدر ہے ، اس کا معنی ہے: ’’ تلا‘‘ یعنی پڑھنا ۔ اور جمع کے معنی میں بھی آتا ہے۔ کہا جاتا ہے: ’’ قَرَأ ، قَرْ ء اً و قُرْآناً ۔‘‘جیسا کہ کہا جاتا ہے: ’’ غَفَرَ ، غَفْر اً و غَفْرَاناً‘‘ ۔
پہلے معنی (پڑھنے ) کی بنیاد پر یہ مصدر اسم مفعول کے معنی میں ہوگا یعنی پڑھا گیا ۔ اور دوسرے معنی (جمع) کے لحاظ سے یہ مصدر اسم فاعل [جامع]کے معنی میں ہوگا یعنی جمع کرنے والا ۔ کیونکہ اس میں احکام اور اخبار جمع ہیں۔
قرآن کریم کا شرعی معنی :
شرعی لحاظ سے : یہ اللہ تعالیٰ کا وہ کلام ہے ‘ جو اس کے رسول اور خاتم النّبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا ہے ‘ جو سورت فاتحہ سے شروع ہوتا ہے اور سورت الناس پر ختم ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
{إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا عَلَیْکَ الْقُرْآنَ تَنزِیْلاً } (الدہر:۲۳)
’’ بے شک ہم نے آپ پر قرآن آہستہ آہستہ نازل کیا ہے۔‘‘
اور فرمایا :
{إِنَّا أَنزَلْنَاہُ قُرْآناً عَرَبِیّاً لَّعَلَّکُمْ تَعْقِلُونَ} (یوسف:۲)
’’بے شک ہم نے اس قرآن کو عربی زبان میں نازل کیا ہے تاکہ تم سمجھ سکو۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے اس قرآن کریم کو ہر قسم کے تغیر اور تبدیل زیادہ اور نقصان سے اس طرح سے محفوظ رکھا ہے کہ اس پاک ذات نے اس کی حفاظت کاذمہ خود لے لیا ہے ‘ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
{ إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَہُ لَحَافِظُونَ} (الحجر:۹)