کتاب: اصول تفسیر - صفحہ 111
التفات
التفات سے مراد ہے کہ کلام کے اسلوب کو ایک انداز سے دوسرے میں تبدیل کرنا ۔ اس کی کئی صورتیں ہیں ‘ان میں سے :
۱: غائب سے مخاطب کی طرف التفات : جیسے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
{اَلْحَمْدُ للّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَo الرَّحْمـنِ الرَّحِیْمِo مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِo إِیَّاکَ نَعْبُدُ وإِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ} (الفاتحہ:۲تا۴)
’’سب تعریف اللہ تعالیٰ ہی کو سزاوار ہے جو تمام مخلوقات کا رب ہے۔ بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔انصاف کے دن کا حاکم ہے۔اے اللہ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔‘‘
یہاں کلام کو غائب سے مخاطب کی طرف تحویل کیا گیا ہے ، اس قول ’’إیاک‘‘ سے ۔
۲: مخاطب سے غائب کی طرف التفات : جیساکہ فرمان ِ الہٰی ہے :
{حَتَّی إِذَا کُنتُمْ فِیْ الْفُلْکِ وَجَرَیْنَ بِہِم} (یونس:۲۲)
’’یہاں تک کہ جب تم کشتیوں میں ہوتے ہو اور وہ ان کو لے کر چلنے لگتی ہیں۔‘‘
یہاں پر {وَجَرَیْنَ بِہِم} سے خطاب کو مخاطب سے غائب کی طرف موڑا گیا ہے ۔
۳: غائب سے متکلم کی طرف التفات : جیسا کہ فرمان الٰہی ہے:
{ وَلَقَدْ أَخَذَ اللّٰهُ مِیْثَاقَ بَنِیْ إِسْرَائِیْلَ وَبَعَثْنَا مِنہُمُ اثْنَیْ عَشَرَ نَقِیْباً} (المائدہ:۱۲)
’’ اور اللہ نے بنی اسرائیل سے اقرار لیا اور اُن میں ہم نے بارہ سردار مقرر کئے۔‘‘