کتاب: اصول تفسیر - صفحہ 104
{وَنَادَی نُوحٌ رَّبَّہُ} (ھود:۴۵)
’’اور نوح علیہ السلام نے اپنے رب کو آواز دی۔‘‘
اور کبھی یہ مرجع سابقہ فعل کے مادہ سے سمجھا جاسکتا ہے ‘ جیساکہ اس آیت میں ہے :
{اعْدِلُواْ ہُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَی} (المائدہ:۸)
’’عدل کرو ‘ یہ تقوی کے قریب تر ہے ۔‘‘
کبھی یہ مرجع رتبہ میں مقدم ہوتا ہے ‘ لفظ میں نہیں، مثال کے طور پر:
’’حمل کتابہ الطالب۔‘‘
’’ اپنی کتاب اٹھائی طالب علم نے ۔‘‘ ( اس مثال میں کتابہ متقدم ہے )
کبھی یہ سیاق آیت سے سمجھ میں آسکتا ہے ‘ مثال کے طور پر :
{ وَلأَبَوَیْہِ لِکُلِّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَکَ إِن کَانَ لَہُ وَلَدٌ}
(النساء:۱۱)
’’ اور میت کے ماں باپ میں سے ہر ایک کا ترکے میں چھٹا حصہ ہے بشرطیکہ میت کی اولاد ہو۔‘‘
اس میں ضمیر میت کی طرف لوٹتی ہے ‘ جسے اس قول سے سمجھا جاسکتا ہے: {مما ترک}
کبھی ضمیر معنی سے مطابقت نہیں رکھتی‘ جیسے :
{وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِن سُلَالَۃٍ مِّن طِیْنٍo ثُمَّ جَعَلْنَاہُ نُطْفَۃً فِیْ قَرَارٍ مَّکِیْنٍ } (المؤمنون:۱۲تا۱۳)
’’اور ہم نے انسان کو مٹی کے خلاصے سے پیدا کیا ۔ پھر اس کو ایک مضبوط (اور محفوظ) جگہ میں نطفہ بنا کر رکھا۔‘‘
یہ ضمیر انسان پر لوٹتی ہے لفظ کے اعتبار سے ، کیونکہ جس چیز کو رکھا گیا وہ نطفہ ہے ‘ انسان نہیں ۔
جب مرجع مفرد اور جمع کے لیے مناسب ہو توجائز ہے کہ ضمیر کا مرجع ان میں سے کوئی