کتاب: اصول حدیث - صفحہ 62
یہ کہا گیا ہے کہ : حضرات عبادلہ؛ یعنی حضرت عبد اللہ بن عباس ‘ حضرت عبد اللہ بن زبیر ‘ اورحضرت عبد اللہ بن عمر بن خطاب اورحضرت عبد اللہ بن عمر و بن العاص رضی اللہ عنہم اجمعین کعب الاحبار او ردوسرے لوگوں سے بنی اسرائیل کی خبریں لیا کرتے تھے۔
دوم…: فعل صحابی: جب یہ رائے کی قبیل سے نہ ہو۔ اس کے لیے مثال بیان کی ہے : حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نماز کسوف کی ہر رکعت میں دو سے زیادہ رکوع کیے ۔
سوم…: صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کی طرف کوئی چیز منسوب کرے ‘اور یہ نہ بیان کرے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کے متعلق علم ہوا تھا ۔جیساکہ حضرت اسماء بنت ابو بکر رضی اللہ عنہما بیان کرتی ہیں کہ:’’ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں گھوڑا ذبح کیا، او رہم مدینہ میں تھے‘ اورہم نے اسے کھایا ۔‘‘[1]
چہارم…: صحابی کسی چیز کے متعلق کہے کہ یہ سنت ہے : جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے :
’’ سنت میں سے یہ ہے کہ تشہد کو-نماز کی حالت میں - آہستہ سے پڑھا جائے ۔‘‘[2]
اگر یہ بات تابعی نے کہی ہو تو کہا گیا ہے کہ یہ بھی مرفوع ہے ، اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’’موقوف‘‘ ہے ۔ جیسا کہ حضرت عبید اللہ بن عتبہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول ہے : ’’ سنت یہ ہے کہ امام عید میں دو خطبے دے ‘ اور ان دونوں کے درمیان میں بیٹھ کر انہیں جدا کرے ۔‘‘[3]
پنجم…: صحابی رضی اللہ عنہ کا قول (جس میں وہ کہے ): ہمیں حکم دیا گیا ، ہمیں منع کیا گیا، یا لوگوں کو حکم دیا گیا، یااس طرح کے دیگر الفاظ ۔
جیساکہ حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا کا قول ہے:
[1] رواہ البخاري (۵۵۱۰ و ۵۵۱۲) کتاب۲۴‘ -باب ومسلم (۱۹۴۲) کتاب‘ ۶-باب
[2] رواہ ابو داؤد (۹۸۶) کتاب الصلاۃ ‘ -باب إخفاء التشہد ؛والترمذي (۲۹۱) کتاب الصلاۃ (۱۰۱)- باب ما جاء أنہ یخفی التشہد ؛ وقال: حسن غریب۔وصححہ الألباني۔
[3] رواہ الشافعي في مسندہ (۱/۷۷) وہو في ’’الأم‘‘ (۱/۲۷۲) کتاب العیدین -باب الفصل بین الخطبتین۔