کتاب: اصول حدیث - صفحہ 50
تعالیٰ اگر چاہے ۔‘‘ اور جیساکہ عبد الکریم بن أبی العوجاء جسے عباسی خلفاء میں سے کسی ایک نے بصرہ میں قتل کیا تھا ،جب اسے قتل کے لیے لایا گیا تو اس نے کہا : ’’ میں نے چار ہزار احادیث گھڑ کر تم میں پھیلائی ہیں ۔ جس میں میں حرام کو حلال اور حلال کو حرام کیا ہے ۔‘‘[1] اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ زندیقوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر چودہ ہزار احادیث گھڑ کر پھیلائی تھیں ۔ خلفاء اور امراء کے حواری ( حاشیہ نشین): جیساکہ غیاث بن سعید مہدی کے گھر میں داخل ہوا ‘ تووہ کبوتر سے کھیل رہا تھا۔اس سے کہا گیا : ’’ امیر المؤمنین کے لیے کوئی حدیث بیان کرو۔‘‘ اس نے ایک سند پیش کی ‘ او رنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ حدیث گھڑی: ’’لا سبق إلا في خف أو نصل أو حافر أو جناح۔‘‘[2] ’’ کوئی مسابقت (مقابلہ بازی ) نہیں ہے ‘ سوائے گھوڑے ‘ اور تیر اور اونٹ اور پرندے کے ۔‘‘[3] یہ سن کر مہدی نے کہا : ’’میں نے اسے آزمانے کے لیے ایسے کیا تھا ‘ پھر کبوتر چھوڑ دیا ‘
[1] قصۃ ابن أبي العوجاء تنظر في تدریب الراوي أیضاً۔ [2] أنظر [تاریخ البغداد] (۱۳/۴۸۶) و[تفسیر الطبري] (۱/۸۰) و (۹/۱۴۷) ۔ والتمہید لابن عبد البر (۱۴/۹۴) ۔ والمنار المنیف لابن القیم (۱۰۶/۱۹۹) و (۱۰۷/۲۰۱)وجعلوا القصۃ لوہب بن وہب مع الرشید۔ وانظر: ترجمۃ غیاث من [میزان الاعتدال في نقد الرجال] (۵/۴۰۶) للحافظ الذہبي ولسان المیزان لابن حجر (۴/۴۲۲) وتاریخ بغداد (۱۲/۳۲۴)۔ [3] اصل حدیث ’’لا سبق إلا في خف أو نصل أو حافر‘‘ امام ابو داؤد نے باب السبق (۲۵۷۴) میں اور امام بیہقی نے سنن کبری (۱۹۵۳۳) میں ذکر کی ہے۔ ان کے علاوہ ابن ماجہ نے بھی اسے نقل کیا ‘ اما م البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے : اس حدیث میں موضوع جملہ [أو جناح] پرندے کے متعلق اپنی طرف سے گھڑا ہوا ہے ‘ اس وجہ سے اس راوی کی پوری حدیث ناقابل اعتماد ہوگی ۔