کتاب: اصول حدیث - صفحہ 43
’’اس کا پانی پاک ہے اوراس کا مردار حلال ہے ۔‘‘ تو ایسے موقع پر ’’ہو الطہور ماؤہ‘‘ کو حذف کرنا جائز نہیں ہے ، کیونکہ حدیث کی شان ورود یہی ہے ، اور حدیث سے اصل مقصود یہی ہے ۔ ۳: یہ کہ یہ حدیث قولی یا فعلی عبادت کی صفت میں وارد نہ ہو: جیساکہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے ‘ بیشک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ جب تم میں سے کوئی ایک نماز میں بیٹھے تو کہے : ((التحیات للّٰہ والصلوات والطیبات، السلام علیک أیھاالنبي ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ،السلام علینا وعلی عباد اللّٰہ الصالحین، أشھد أن لا إلہ إلا اللّٰہ وحدہ لا شریک لہ،وأشھد أن محمداً عبدہ ورسولہ۔))[1] ’’ تمام قولی عبادتیں ،تمام فعلی عبادتیں ، تمام مالی عبادتیں اللہ ہی کیلئے ہیں ۔اے نبی آپ پر سلامتی ہو اور اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں ہوں ۔ہم پراور اللہ کے نیک بندوں پر سلامتی ہو، میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ کوئی معبود اللہ کے سوا عبادت کے لائق نہیں ، وہ اکیلاہے ، اس کا کوئی شریک نہیں ، اور اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ۔‘‘[2] پس اس حدیث کی بیان کردہ مشروع صفت سے بغیر اشارہ کئے حذف کرناجائز نہیں ۔ ۴: یہ کہ اختصار کرنے والا ایسا عالم ہو جو الفاظ کے مدلولات کو جانتا ہے ‘اور جس کا حذف کرنا معنی میں خلل ڈالے گا اور جس کا حذف معانی میں خلل نہیں ڈالے گا۔ تاکہ غیر شعوری طور پر ایسے الفاظ کو حذف نہ کرے جس سے معنی میں خلل واقع ہو۔
[1] رواہ البخاري (۸۳۱) کتاب الآذان‘ ۱۴۸- باب التشہد في الآخرۃ۔ومسلم (۴۰۲) کتاب الصلاۃ - ‘ ۱۶ باب التشہد في الصلاۃ‘‘۔ [2] التحیات مختلف صیغوں اور الفاظ میں ثابت ہے ‘ لیکن مشہور عام الفاظ یہی ہیں ۔