کتاب: اصول حدیث - صفحہ 42
بارے میں پوچھا جسے احتلام ہوجائے ‘ کیا وہ غسل کرے گی؟‘‘
’’لا یقل أحدکم اللہم اغفر لي إن شئت‘‘[1]،’’ الحج المبرور لیس لہ الجزاء إلا الجنۃ۔‘‘[2]
’’ اور تم میں سے کوئی ایک یہ نہ کہے : اے اللہ ! اگر تو چاہے تو مجھے بخش دے ۔ ’’حج مبرور کا بدلہ جنت کے بغیر کچھ بھی نہیں ہے ۔‘‘
ان احادیث سے یہ جملے حذف کرنا جائز نہیں ہے :
’’ إلا مثلاً بمثل ‘‘، ’’ حتی یبدو صلاحہ ‘‘،’’ وہو غضبان‘‘ ، ’’إذا ھي رأت الماء ‘‘ ،’’إن شئت ‘‘،’’ المبرور ‘‘
کیونکہ ان کے حذف کرنا معنی میں خلل ڈالتا ہے ۔
۲: اس موضوع کو حذف نہ کرے جس کی وجہ سے حدیث وارد ہوئی ہے :
جیساکہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے:
’’ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: ’’ ہم لوگ سمندر میں سفر کرتے ہیں ، اور ہمارے ساتھ تھوڑا پانی ہوتا ہے ‘ اگر ہم اس سے وضوء کریں تو ہم پیاسے رہ جائیں ۔تو کیا ہم سمندر کے پانی سے وضوء کرلیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((ہو الطہور ماؤہ الحل میتتہ۔))[3]
[1] رواہ البخاري (۶۳۳۹) کتاب الدعوات‘۲۱- باب لیعزم فإنہ لا مکرہ لہ۔ومسلم (۲۶۷۸) کتاب الذکر والدعاء-‘ ۳ باب العزم بالدعاء؛ ولا یقل: إن شئت‘‘۔
[2] رواہ أحمد (۳/۳۲۵/۱۴۵۲۲) والطبراني (۸/۲۰۳/۸۴۰۵) ؛من[المعجم الوسیط] من حدیث جابر رضی اللّٰہ عنہ ۔وقال الہیثمي في [المجمع الزوائد (۳/۲۰۷) ] اسنادہ حسن۔وہوفي البخاري (۱۷۷۳) کتاب العمرۃ‘۱- باب وجوب العمرۃ وفضلہ۔ومسلم (۱۳۴۹) کتاب الحج‘ ۷۹ باب فضل الحج والعمرۃ‘ ویوم عرفۃ۔
[3] رواہ مالک (۱/۲۲/۴۱) کتاب الطہارۃ‘ ۳۔ باب الطہور للوضوء۔وأبو داؤد (۸۳) کتاب الطہارۃ والدعاء ‘ ۴۱ باب الوضوء بماء البحر‘‘۔و الترمذي (۶۹) کتاب الطہارۃ‘ ۵۲- باب ما جاء في ماء البحر أنہ طہور۔وقال: حسن صحیح۔والنسائي (۱/۵۰/۵۹) کتاب الطہارۃ‘ ۴۷۔باب ماء البحر۔ و ابن ماجۃ (۳۸۶) کتاب الطہارۃ وسننہا‘ ۳۶۔ باب الوضوء بماء البحر۔