کتاب: اصول حدیث - صفحہ 41
حدیث کا اختصار (۱)… اس کی تعریف : (ب)… اس کا حکم : ۱: اس کی تعریف : ’’ أن یحذف راویہ أو ناقلہ شئیاً منہ۔‘‘ ’’یہ کہ حدیث کا راوی یا ناقل اس میں سے کچھ حذف کردے ۔‘‘ ب: اس کا حکم : اختصار حدیث جائز نہیں ہے ‘ مگر پانچ شرطوں کے ساتھ : ۱: یہ اختصارمعنی حدیث میں مخل نہ ہو‘ جیسے استثناء ‘ غایت ‘اور حال ‘ اور شرط یا اس طرح کے امور ۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین ہیں : ’’ لا تبیعوا الذھب بالذہب إلا مثلاً بمثل ‘‘[1]، ’’لا تبیعوا الثمر حتی یبدو صلاحہ ‘‘[2] ،’’ لا یقضین حکمٌ بین اثنین وہو غضبان‘‘[3] ، ’’نعم إذا ھي رأت الماء ۔‘‘[4] ’’سونا سونے کے بدلے نہ بیچو ‘ مگر برابر برابر ۔ اور پھل نہ بیچو ‘ یہاں تک کہ اس کی صلاحیت ظاہر ہو(پک) جائے ۔ فیصلہ کرنے والا دو آمیوں کے درمیان غصہ کی حالت میں فیصلہ نہ کرے۔ ہاں جب وہ پانی دیکھے۔ (یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے) اس وقت فرمایاجب ام سلیم رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس عورت کے
[1] رواہ البخاري (۲۱۷۷) کتاب البیوع‘۷۸- باب بیع الفضۃ بالفضۃ۔ومسلم (۱۵۷۴) کتاب المساقاۃ ‘ ۱۴ باب الربا۔ [2] رواہ البخاري (۲۱۸۳) کتاب البیوع‘۱۳- باب النہي عن بیع الثمار قبل بدو صلاحہا بغیر شرط البیع۔ [3] رواہ البخاري (۷۱۵۸) کتاب الأحکام‘۱۳- باب غسل ہل یقضي القاضي وھو غضبان ؟ ۔ و مسلم (۱۷۱۷) کتاب الأقضیۃ ‘ کراہۃ قضاء القاضي وہو غضبان۔ [4] رواہ الترمذي (۱۲۲) کتاب الطہارۃ۹۰، باب ما جاء في المرأۃ تری في المنام مثل ما یری الرجل؛ من حدیث أم سلمۃ۔وہو في البخاري (۲۸۲) کتاب الغسل‘۲۲- باب إذا احتلمت المرأۃ ۔ ومسلم(۲۱۲) کتاب الحیض ‘7باب وجوب غسل علی المرأۃ بخروج المني منہا۔