کتاب: اصول حدیث - صفحہ 30
’’ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر وقت اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا کرتے تھے۔‘‘ اور جن مصنّفین نے نقل کیا ہے ‘ جیسا کہ صاحب ’’العمدۃ‘‘ مثلاً ، جو اپنے اصل کی طرف بلا سند کے منسوب ہو‘ تو اس پر معلق ہونے کا حکم نہیں لگایا جائے گا۔کیونکہ اس کو نقل کرنے والا اس کی سند بیان کرنے والا نہیں ہے بلکہ یہ فرع ہے ‘ اور فرع کے لیے اصل کا ہی حکم ہوتا ہے۔ ۳: معضل: ’’ ما حذف من أثناء أسنادہ راویان فأکثر علی التوالی۔‘‘ ’’ معضل وہ حدیث ہے جس کی سند کے درمیان سے دو یا اس سے زیادہ راوی اکٹھے حذف کردیے گئے ہوں ۔‘‘ ۴: منقطع: ’’ما حذف من أثناء أسنادہ راویان فأکثر لا علی التوالی۔‘‘ ’’ معضل وہ حدیث ہے جس کی سند کے درمیان سے دو یا اس سے زیادہ راوی متفرق حذف کردیے گئے ہوں ۔‘‘ کبھی اس سے مراد لیاجاتا ہے کہ: ’’ وہ حدیث جس کی سند متصل نہ ہو‘ اس صورت میں یہ چاروں قسموں کو شامل ہوگی ۔‘‘ اس کی مثال : بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی روایت ہے ‘ فرماتے ہیں : ’’ حَدَّثَنَا الحُمَيْدِيُّ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ الزُّبَيْرِ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الأَنْصَارِيُّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيُّ، أَنَّهُ سَمِعَ عَلْقَمَةَ بْنَ وَقَّاصٍ اللَّيْثِيَّ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الخَطَّابِ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْهُ عَلَى المِنْبَرِ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّى اللّٰہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ،…۔‘‘[1]
[1] رواہ البخاری (۱) کتاب بدء الوحي‘۱-:باب کیف بدء الوحي إلی رسول اللّٰہ صلي اللّٰہ عليه وسلم ۔ ومسلم (۱۹۰۷) کتاب الإمارۃ‘۴۵-:باب قولہ صلي اللّٰہ عليه وسلم :إنما الأعمال بالنیۃ‘‘و أنہ یدخل فیہ الغزو وغیرہ من الأعمال ۔