کتاب: اصول حدیث - صفحہ 23
’’ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دعا میں اپنے ہاتھ پھیلاتے تو اس وقت تک واپس نہ کرتے جب تک اپنے چہرہ پر نہ پھیر لیتے ۔‘‘[1] بلوغ المرام میں (حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ) کہا ہے : ’’ ابو داؤد میں اس کے شواہد ہیں ‘ ان کا مجموعہ اس کا تقاضا کرتا ہے کہ یہ حدیث حسن ہے ۔ اس حدیث کا نام ’’ حسن لغیرہ ‘‘ اس لیے رکھا گیا ہے کہ اگر اس کی روایت کے طرق میں سے ہر طریق کو منفرد طور پر دیکھا جائے ‘ تو یہ حسن کے رتبہ کو نہیں پہنچ پاتی ۔جب اس کے سارے طرق دیکھے تو اس کو تقویت مل گئی ‘ اور یہ حسن کے رتبہ کو پہنچ گئی ۔ ضعیف ضعیف :’’وہ حدیث جس میں حسن اور صحیح کی شرطیں نہ پائی جائیں ۔‘‘ اس کی مثال حدیث: ’’ احترسوا من الناس بسوء الظن۔‘‘ ’’ لوگوں سے بچو‘ بد گمانی سے ۔‘‘ جہاں پر زیادہ ضعیف حدیثوں کا گمان ہے ‘ ان کتب میں سے : ’’ وہ روایات جن میں عقیلي منفرد ہو‘ یا ابن عدی‘ یا خطیب بغدادی ، یا ابن عساکر اپنی تاریخ میں ، او ردیلمی مسند فردوس میں ‘ او رحکیم ترمذی نوادر الأصول میں نقل کریں ؛ یہ صاحب سنن ترمذی کے علاوہ ہیں ۔ او رایسے ہی ابن جارود او رحاکم اپنی تاریخ میں [جن احادیث کا ذکر کریں ]۔ ضعیف کے علاوہ باقی اخبار آحاد کا فائدہ : اول: ظن : یعنی جس سے یہ روایت نقل کی گئی ہے ‘ اس کی طرف اس کے منسوب ہونے میں صحت /درستگی کا رجحان ۔ اور یہ ظن اپنے سابقہ مراتب کے لحاظ سے مختلف ہوتا ہے۔
[1] رواہ الترمذی(۳۳۸۶) کتاب الدعوات‘۱۱- باب ما جاء في رفع الأیدي عند الدعاء۔ وقال: صحیح غریب ۔ وحدیث ابن عباس‘رواہ ابو داؤد (۱۴۸۵)کتاب الوتر ‘۲۳-باب الدعاء ۔