کتاب: اصول حدیث - صفحہ 111
((مَن سَلَكَ طَرِيقًا يَلْتَمِسُ فيه عِلْمًا، سَهَّلَ اللّٰہُ له به طَرِيقًا إلى الجَنَّةِ ۔))[1] ’’جو کسی ایسے راستے پر چلا جس میں وہ علم تلاش کررہا تھا ، اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت کا راستہ آسان کردیتے ہیں ۔‘‘ (۲) اہم سے اہم تر سے شروع کرنا، جس کی دنیا اور دین کے امور میں ضرورت ہو: بیشک یہی حکمت ہے ‘ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿یُؤتِیْ الْحِکْمَۃَ مَن یَشَائُ وَمَن یُؤْتَ الْحِکْمَۃَ فَقَدْ أُوتِیَ خَیْْراً کَثِیْراً وَمَا یَذَّکَّرُ إِلاَّ أُوْلُواْ الأَلْبَابِ ﴾ (البقرہ:۲۶۹) ’’ وہ جس کو چاہتا ہے دانائی بخشتا ہے اور جس کو دانائی ملی بیشک اُس کو بڑی نعمت ملی۔ اور نصیحت تو وہی لوگ قبول کرتے ہیں جو عقلمند ہیں ۔‘‘ (۳) طلب علم میں تواضع : اس طرح سے کہ کسی بھی شخص سے فائدہ کی بات حاصل کرنے میں تکبر نہ کر ے ۔ بیشک علم کے لیے تواضع اختیار کرنے میں ہی رفعت اور بلندی ہے۔ اور ذلالت غلبہ اور عزت کی طلب میں ہے۔کتنے ہی لوگ ہونگے جو جملہ طور پر تو آپ سے علم میں کم ہوں گے، لیکن ان کے پاس کسی مسئلہ میں علم کی کوئی ایسی بات ہوگی جو آپ کے پاس نہیں ہوگی۔ (۴) معلم کا احترام وتوقیر: طالب کو چاہیے کہ استاد کے شایان شان اس کی عزت و احترام کرے۔بیشک ناصح معلم کی منزلت باپ کی سی ہوتی ہے۔ جو نفس اور دل کو علم اور ایمان کی غذا دیتا ہے ۔ اس کا حق یہ ہے کہ طالب علم استاد کی شان کے مطابق بغیر کسی مبالغہ‘ غلو اور تقصیر کے اس کی توقیر و احترام کرے۔اور استاد سے ایسا سوال پوچھے جس سے رہنمائی ملتی ہو۔ ایسا سوال نہ کرے جو سرکش اور چیلنج کرنے والے کی طرح ہو۔ اور استاد کی طرف اگر جفااور سختی پائے تو اس پر صبر کرے۔ اس لیے کہ ممکن ہے کہ بسا
[1] مسلم (۲۶۹۹) کتاب الذکر والدعاء ۱۱۔ باب فضل الإجتماع علی تلاوۃ القرآن وعلی الذکر۔