کتاب: اصول حدیث - صفحہ 108
القيامةِ ۔))[1] ’’ جس نے(وہ) علم سیکھا ‘ جس سے اللہ تعالیٰ کی رضامندی تلاش کی جاتی ہے ‘ اس علم کو نہیں سیکھتا سوائے اس کے کہ وہ دنیا کے مقاصد حاصل کرے ‘ وہ روزِ قیامت جنت کی خوشبو بھی نہیں پائے گا ۔‘‘ اور یہ بھی روایت کیا گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مَنْ طلب العلمَ ليجاريَ به العلماءَ أو يماريَ به السفهاءَ ‘أو يصرفَ به وجوهَ الناسِ إليه أدخله اللّٰہُ النارَ ۔)) [2] (رواہ الترمذي) ’’ جس نے علم اس لیے حاصل کیا کہ وہ اس سے علماء سے مناظرے کرے ‘ یا احمق ( سادہ لوح ) کو دھوکہ دے ‘ یالوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرے ‘ تو اللہ تعالیٰ اسے جہنم کی آگ میں داخل کریں گے ۔‘‘ (۲)… علم کے مطابق عمل…: جس نے علم کے مطابق عمل کیا اللہ تعالیٰ اسے وہ علم بھی عطا فرمائیں گے جو اس نے ابھی تک نہیں سیکھا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ وَالَّذِیْنَ اہْتَدَوْا زَادَہُمْ ہُدًی وَآتَاہُمْ تَقْواہُم﴾ (محمد:۱۷) ’’ اور جو لوگ ہدایت یافتہ ہیں ان کو وہ ہدایت مزید بخشتا اور پرہیزگاری عنایت کرتا ہے۔‘‘
[1] رواہ أبوداؤد (۳۶۶۴) کتاب العلم‘۱۲۔ باب في طلب العلم لغیر اللّٰہ تعالیٰ۔ وابن ماجۃ (۲۵۲) المقدمۃ ‘۲۳:۔ باب الانتفاع بالعلم والعمل بہ۔ وأحمد (۳۳۸ح ۸۴۳۸) ۔ وصححہ ابن حبان (۱/۲۷۹/۷۸) ۔وقال العقیلي في الضعفاء (۳/۴۶۶) : الروایۃ في ہذا الباب لینۃ۔ ورجح أبو زرعۃفي ’’ العلل‘‘ (۲/۴۳۸) وقفہ۔ [2] رواہ الترمذی (۲۶۵۴) کتاب العلم؛ ۶۔ باب ما جاء فیمن یطلب الدنیا بعلمہن ؛ وقال: غریب۔ وابن ماجۃ؛ (۲۶۰و ۲۵۹) المقدمۃ؛ ۲۳۔باب الانتفاع بالعلم والعمل بہ۔ وحسنہ الألباني في مجموع طرقہ۔