کتاب: اصول حدیث - صفحہ 100
کی ہے ‘ جس میں اہم فوائد کو بیان کردیا ہے۔آپ کہتے ہیں :
’’ اور اس کتاب میں احادیث میں سے جو کچھ بھی ہے ‘ اس پر عمل ہورہا ہے ‘ اور بعض علماء نے اسے قبول کیا ہے ‘ سوائے دو حدیثوں کے ۔‘‘
ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث :
((أن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم جمع بین الظہر والعصر بالمدینۃ والمغرب و العشاء من غیر خوف ولا سفر ۔))[1]
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں ظہر اور عصر کی اور مغرب اور عشاء کی نمازوں کو بغیر کسی خوف اور سفر کے جمع کیا ۔‘‘
اور دوسری حدیث :
((إذا شرب فاجلدوہ ‘ فإن عاد في الرابعۃ فاقتلوہ۔))[2]
’’ جب کوئی شراب پئے تو اسے کوڑے لگاؤ ‘ اگر چوتھی بار پئے تواسے قتل کردو۔‘‘
اس کتاب میں بہت سے ایسے فقہی اور حدیثی فوائد جمع ہوئے ہیں جو اس کے علاوہ
[1] رواہ مسلم (۷۰۵) کتاب الصلاۃ؛ ۵۔ باب جواز الجمع بین الصلاۃ في السفر وانظر: البخاری (۵۴۳)۔کتاب مواقیت الصلاۃ‘ ۱۲۔باب تأخیر الظہر إلی العصر۔و رواہ الترمذي (۱۸۷) کتاب الصلاۃ ۲۴؛ باب ماجاء في الجمع بین الصلاتین في الحضر۔
میں کہتا ہوں : بلکہ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہما کے مقتضی کے مطابق لیا ہے؛ اور ظہر اور عصر اور مغرب اور عشاء کے مابین مریض کے لیے جمع کرنے کو جائز کہتے ہیں ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا گیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے کیوں کیا؟ تو آپ نے فرمایا: ’’ آپ چاہتے تھے کہ آپ کی امت پر حرج نہ ہو ۔‘‘ پس یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ جب بھی امت کو جمع کے ترک کرنے میں حرج لاحق ہو رہا ہو تو اس وقت جمع بین الصلاتین جائز ہو جاتا ہے۔جب کہ شراب نوش کو چوتھی بار پینے پر قتل کرنے والی حدیث کو بعض علماء نے قبول کیا ہے۔ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ یہی کہتے ہیں : مئے نوش کو چوتھی بار ہر حال میں قتل کردیا جائے۔‘‘ جبکہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :’’ جب اس کے قتل کی ضرورت محسوس ہو تو اسے قتل کیا جائے ؛ مثلاً کہ ایسا کئے بغیر لوگ شراب پینے سے باز نہ آرہے ہوں ۔‘‘ پس اس صورت میں ان احادیث پر ترک عمل پر کوئی اجماع باقی نہ رہا ۔‘‘
[2] رواہ الترمذي (۱۴۴۴) کتاب الحدود۱۵؛ باب ماجاء من شرب الخمر فاجلدوہ ‘ من عاد في الرابعۃ فاقتلوہ۔