کتاب: اصول فقہ(عثیمین) - صفحہ 96
جائے ، یا تو دلیل غیر صحیح ہوگی ، یا غیر صریح ہوگی ، یا منسوخ ہوگی ‘ یا مسئلہ میں اختلاف ہوگا جس کا علم آپ کو نہیں ہوسکا۔
اجماع کی شرطیں :
اجماع کی شرطیں ہیں ‘ان میں سے :
۱: یہ کہ صحیح طریقے سے ثابت ہو‘ اس طرح سے کہ وہ علماء کرام رحمۃ اللہ علیہم کے درمیان مشہور ہو‘ یا اس کا نقل کرنے والا ثقہ اور وسیع الاطلاع ہو۔
۲: یہ کہ اس سے پہلے مستقر خلاف سابق نہ ہو۔ (غیر مستقر کا اعتبار نہیں )۔ اگر اس سے پہلے مستقر خلاف ہے تو اس کے بعد کوئی اجماع نہیں ہوگا۔ کیونکہ اقوال ان کے کہنے والوں کی موت سے مر نہیں جاتے۔
کیونکہ اجماع سابقہ اختلاف کو ختم نہیں کرسکتا۔ بلکہ وہ خلاف کے پیدا ہونے میں مانع ہے۔ قوت مأخذ کی وجہ سے یہی راجح قول ہے۔
یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ شرط نہیں ہے ، تو یہ صحیح ہوگا کہ دوسرے زمانہ میں سابقہ اقوال میں سے کسی ایک پر اجماع منعقد کرلیا جائے۔ اور یہ ان لوگوں کے لیے حجت ہوگا جو اس کے بعد آئیں گے۔
جمہور کے ہاں اجماع کرنے والوں کے زمانے گا گزر جانا شرط نہیں ہے۔ اسی زمانہ کے لوگوں میں صرف کسی چیز پر اتفاق سے ان کا اجماع منعقد ہوسکتا ہے۔ نہ ہی ان ( اجماع منعقد کرنے والوں ) کے لیے اور نہ ہی ان کے بعد کے لوگوں کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ اس اجماع کی مخالفت کریں ۔ اس لیے کہ جو دلائل اجماع کے حجت ہونے پر دلالت کرتے ہیں ان میں زمانہ کا گزرنا کہیں بھی شرط نہیں ہے۔ اور اس لیے کہ جب ان کے اتفاق کے وقت اجماع حاصل ہوگیا تو پھر اس کو کونسی چیز ختم کرسکتی ہے۔
جب مجتھدین میں سے بعض کوئی بات کہیں ‘ یا کوئی کام کریں ‘ اور یہ اہل اجتہاد کے درمیان مشہور بھی ہوجائے ‘ اور (اہل اجتہاد) انکار کی قدرت ہونے کے باوجود اس کا انکار نہ