کتاب: اصول فقہ(عثیمین) - صفحہ 95
’’ میری امت گمراہی پر جمع نہیں ہوگی۔‘‘ ۴: ہم کہتے ہیں : کسی چیز پر امت کا اجماع یا تو حق ہوگا یا باطل ہوگا۔ اگر وہ حق ہے تو حجت ہے۔ اور اگر وہ باطل ہے تو کیسے جائز ہوسکتا ہے کہ یہ امت جو اللہ تعالیٰ کے ہاں اپنے نبی سے لیکر روز ِ قیامت تک کے لیے سب سے زیادہ عزت والی امت ہے ‘ کسی ایسے باطل امر پر جمع ہوجائے جس سے اللہ راضی نہ ہوتے ہوں ۔ یہ سب سے بڑی محال سی بات ہے۔ اجماع کی اقسام: اجماع کی دو قسمیں ہیں : قطعی اور ظنی۔ ۱: قطعی : وہ ہے جس کا امت میں واقع ہونا ضرورت کے تحت معلوم ہو۔( یعنی بغیر نظر و تأمل کے اس کا ہونا معلوم ہو)۔ جیساکہ : پانچ نمازوں کے واجب ہونے ‘ اور زنا کے حرام ہونے پر اجماع۔ اس قسم کے ثابت اور حجت ہونے کا کوئی انکار نہیں کرتا۔ اس اجماع کا مخالف اگر وہ اس کا جاہل نہ ہو تو کافر ہوجائے گا۔ ۲: ظنی : (وہ اجماع ہے ) جس کا علم صرف تتبع اور استقراء سے حاصل ہو سکتاہو۔ علماء کرام رحمہم اللہ نے اس کے ثبوت کے امکان میں اختلاف کیا ہے۔ اس میں راجح ترین قول شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا ہے۔ وہ عقیدہ واسطیہ میں فرماتے ہیں : ’’اور اجماع منضبط وہ ہے جس پر سلف صالحین ( قرون ثلاثہ مفضلہ والے) تھے۔ کیونکہ ان کے بعد اختلاف بہت بڑھ گیا، اور امت بہت پھیل گئی ۔‘‘[1] (اور ان کا اجماع ممکن نہ رہا )۔ (قاعدہ ):یہ بات جان لیجیے کہ یہ بات ممکن نہیں ہے کہ یہ امت صحیح صریح او رغیر منسوخ دلیل کے خلاف کسی بات پر جمع ہوجائے۔ ان کا اجماع صرف حق پر ہی ہوسکتا ہے۔ جب آپ ایسا اجماع دیکھیں جس کے متعلق یہ گمان ہوکہ یہ اس اصول کے مخالف ہے ۔تو غور کیا
[1] دیکھو: مصنف کی شرح:’’شرح عقیدہ واسطیہ ‘‘(۲/۳۲۸) ط۔ دار ابن جوزي۔