کتاب: اصول فقہ(عثیمین) - صفحہ 94
صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ایسے کیا کرتے تھے ۔‘‘ تو یہ حکماً مرفوع ہوگا۔ یہ اجماع کی نقل(روایت ) نہیں ہوگی۔
اور ہمارے قول: ’’علی حکم شرعي‘‘ ان کا کسی عقلی یا عادی حکم پر اجماع خارج ہوئے ‘ کیونکہ اس کا کوئی دخل یہاں پر نہیں ہے۔کیونکہ یہاں پر بحث اجماع میں ہے جو شرعی دلائل میں سے ایک دلیل ہونے کے اعتبار سے ہے۔
اجماع (کا حکم ):اجماع حجت ہے۔ اس کی کئی دلیلیں ہیں ‘ ان میں سے:
۱: اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿ وَکَذَلِکَ جَعَلْنَاکُمْ أُمَّۃً وَسَطاً لِّتَکُونُواْ شُہَدَائَ عَلَی النَّاسِ﴾ (البقرہ:۱۴۳)
’’ اور اسی طرح ہم نے تم کو امت ِ معتدل بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو۔‘‘
اللہ تعالیٰ کا فرمانا: ﴿شُہَدَائَ﴾ یہ ان کے اعمال پر گواہی کو اور ان کے اعمال کے احکام کی گواہی کو شامل ہے۔ اور گواہ کی بات معتبر ہوتی ہے۔
۲: اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْء ٍ فَرُدُّوہُ إِلَی اللّہِ وَالرَّسُولِ ﴾ (النساء:۵۹)
’’ اگر کسی بات میں تم میں اختلاف واقع ہو تو اللہ اور اس کے رسول (کے حکم) کی طرف رجوع کرو ۔‘‘
یہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جس چیز پر ان کا اتفاق ہو جائے وہ حق ہے ۔
۳: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
(( لا تجتمع امتي علی ضلالۃ۔))[1]
[1] رواہ الترمذي(۱۲۶۷)کتاب الفتن‘۷-باب ما جاء في لزوم الجماعۃ وقال غریب۔ وأبو داؤد (۴۲۵۳) کتاب الفتن والملاحم‘ باب ذکر الفتن ودلائلہا وابن ماجہ (۳۹۵۰) کتاب الفتن ‘۸-باب السواد الأعظم۔ وقال البوصیري: ’’ وقد روي ہذا الحدیث ؛ من حدیث أبي ذر‘ و ابي مالک الأشعري‘وابن عمر وابي نضرۃ و قدامۃ بن عبید اللہ الکلابي وفي کلھا نظر۔ قالہ شیخنا العراقي۔ وضعفہ النووي في ’’شرح المسلم ‘‘ (۱۳/۶۷)۔ وحسنہ الألباني في تخریج السنۃ(ح۸۲)۔