کتاب: اصول فقہ(عثیمین) - صفحہ 90
گیا، یا اس طرح کے دیگر الفاظ۔ جیساکہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول : ’’ لوگوں کو حکم دیا گیا کہ ان کا آخری کام بیت اللہ کا طواف ہو‘ صرف یہ کہ حیض والی عورت پر تخفیف کی گئی ۔‘‘[1] اور حضرت ام ِ عطیہ رضی اللہ عنہا کا یہ قول : ’’ ہمیں جنازوں کے ساتھ چلنے سے منع کیا گیا ، اور ہم پر اس بارے میں تشدد نہیں کیا گیا (نہ ہی اسے واجب کیا گیا )۔‘‘ [2] ۲: موقوف : جسے صحابی کی طرف منسوب کیا جائے۔ اور اس کے لیے مرفوع ہونے کا حکم ثابت نہ ہو۔ راجح قول کے مطابق یہ حجت ہے۔ سوائے اس صورت کے کہ یہ نص یا کسی دوسرے صحابی کے قول کے خلاف ہو۔ اگر کسی دوسرے صحابی کا قول اس کے مخالف ہو تو ان میں سے راجح کو لیا جائے گا۔ [3] اور صحابی وہ ہے جس نے ایمان کی حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ملاقات کی ہو‘ اور ایمان پر ہی اس کا انتقال ہوا ہو۔ ۳: مقطوع : اس کو کہتے ہیں جو تابعی یا اس کے بعد کے لوگوں کی طرف منسوب کیا جائے ۔ تابعی: وہ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان کی حالت میں کسی صحابی سے ملا ہو‘ اور اسی پر اس کی موت ہوئی ہو۔
[1] رواہ البخاري (۱۷۵۵) کتاب الحج ‘ ۱۴۴- باب طواف الوداع ۔ومسلم (۱۳۲۸) کتاب الحج‘ ۶۷- باب وجوب طواف الوداع و سقوطہ عن الحائض ۔ [2] رواہ البخاري (۱۲۷۸) کتاب الجنائز ‘ ۳۰- باب اتباع النساء الجنائز ۔ومسلم (۹۳۸) کتاب الجنائز ‘ ۱۱- باب نہیالنساء عن اتباع الجنائز ۔ [3] موقوف کے بارے میں اختلاف تین اصولوں پر مبنی ہے : (۱)… وہ صحابہ جن کا قول حجت ہونے کے بارے میں شارع نے نص وارد کی ہو (جیسا کہ حضرت ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں احادیث ہیں )۔ ان کی بات ماننے میں کوئی اشکال نہیں ہے ‘ ان کا قول حجت ہے ۔ وہ صحابی جو اپنی امامت اور علم اور فقہ میں معروف اور مشہور ہو ‘ اس کا قول بھی قوی اور حجت ہوتا ہے ۔ ان کی اتباع کرنا کسی بھی دوسرے امام جیسے امام شافعی امام احمد بن حنبل رحمہما اللہ کی اتباع سے زیادہ اولی اور حق دار ہے ۔ جس کے اندر یہ دونوں صفات نہ ہوں ‘ اس کا قول حجت نہیں ہوتا ۔