کتاب: اصول فقہ(عثیمین) - صفحہ 89
کہ جس پر اللہ تعالیٰ خاموش رہیں وہ جائز ہے۔[1] نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب اخلاقی وصف کی مثال : ’’ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں سب سے بڑھ کر سخی اور سب سے بڑھ کر بہادر تھے ۔‘‘[2] اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جو پیدائشی صفت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی منسوب کی گئی ہے اس کی مثال : ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں میانہ قامت تھے ‘نہ ہی بہت لمبے تھے اور نہ ہی بہت چھوٹے ۔‘‘ مضاف إلیہ کے اعتبار سے خبر کی اقسام: خبر اپنے مضاف الیہ کے اعتبار سے تین اقسام میں تقسیم ہوتا ہے : (۱) … مرفوع (۲) … موقوف (۳)… مقطوع ۔ مرفوع: جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کی جائے خواہ حقیقتاً منسوب ہو یا حکماً۔‘‘ سو مرفوع حقیقت میں : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ‘ فعل اور آپ کا اقرار ہے ۔‘‘ اور حکم میں مرفوع: وہ ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت، یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد، یا اس طرح کی کسی چیز کی طرف منسوب ہو۔ جو اس بات پر دلالت کرتا ہو کہ یہ کام آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے براہ ِ راست خود اس عمل کو انجام نہیں دیا۔ اسی میں سے صحابی رضی اللہ عنہ کا قول بھی ہے (کہ وہ کہے ): ہمیں حکم دیا گیا ، ہمیں منع کیا
[1] کیونکہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس معاملہ کو نہیں جانا ‘ اللہ تعالیٰ نے تو جان لیا تھا؛ اگر اس میں کوئی قباحت ہوتی تو اللہ تعالیٰ اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل کرکے اس کے متعلق بتادیا ہوتا۔ (مترجم) [2] رواہ البخاری(۲۶۶۵) کتاب الجہاد و السیر ‘۲۴-باب الشجاعۃ في الحرب۔