کتاب: اصول فقہ(عثیمین) - صفحہ 88
اور فعل پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقرار کی مثال : اس سریہ والے کو اس کے فعل پر برقرار رکھنا ہے جو نماز کی ہررکعت ﴿قل ھو اللہ أحد﴾ پر ختم کیا کرتا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’ اس سے پوچھو وہ کس وجہ سے ایسے کرتا ہے ؟۔ انہوں نے اس سے پوچھا :’’ تو اس نے کہا :’’ کیونکہ یہ رحمان کی صفت ہے ‘اور مجھے یہ بات محبوب ہے کہ میں اسے پڑھا کروں ۔‘‘ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ اس کو خبر دو کہ اللہ تعالیٰ اس سے محبت کرتے ہیں ۔‘‘[1]
دوسری مثال : ان حبشیوں کے فعل پر خاموش رہنا ہے جو مسجد میں کھیل رہے تھے۔‘‘[2]
یہ اسلام پر تألیف قلب کے لیے تھا۔
اور جو چیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ہوئی اور اس کے متعلق علم نہ ہوسکا ہو‘ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب نہیں کی جائے گی۔ لیکن وہ اس وجہ سے حجت ہوگی کہ اللہ تعالیٰ نے اسے برقرار رکھا ہے۔ اس لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عزل کے جواز پر استدلال کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اس پر برقرار رکھا ہے ۔حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
’’ ہم عزل کیا کرتے تھے اور اور قرآن نازل ہورہا تھا ۔‘‘[3]
مسلم کی روایت میں یہ زیادہ ہے :حضرت ِ سفیان رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں :
’’ اگر اس میں کسی چیز سے منع کیا جانا ہوتا تو ہمیں قرآن اس سے منع کرتا ۔‘‘
اور یہ دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کا برقرار رکھنا حجت ہے۔ اور وہ برے افعال جو منافقین چھپایا کرتے تھے ‘ اللہ تعالیٰ ان کو بیان کردیتے تھے‘ اور ان پر انکار کرتے۔ تو یہ بات دلیل ہے
[1] رواہ البخاری (۷۳۷۵)کتاب التوحید‘ ۱- باب ما جاء في دعاء النبي صلي اللّٰه عليه وسلم أمتہ إلی توحید اللہ تبارک وتعالیٰ۔ ومسلم (۸۱۳) کتاب الصلاۃ‘ ۴۵ -باب فضل قرأۃ ﴿قل ھو اللّٰہ أحد ﴾ ۔
[2] رواہ البخاري (۴۵۴) کتاب الصلاۃ ؛ ۶۹-باب أصحاب الحراب في المسجد ۔ مسلم (۹۸۲) بعد (۱۸) کتاب صلاۃ العیدین ‘۴- باب الرخصۃ في اللعب الذي لا معصیۃ فیہ في أیام العید ۔
[3] متفق علیہ۔ رواہ البخاری(۵۲۰۷) کتاب النکاح ‘ ۹۶-باب العزل۔ ومسلم(۱۴۴۰)کتاب النکاح ‘ ۲۲-باب العزل۔