کتاب: اصول فقہ(عثیمین) - صفحہ 84
’’ میں تمہیں نبیذ کے برتنوں سے منع کیا کرتا تھا ، اب جو چاہو پیو ‘ صرف نشہ والی چیز نہ پیو۔‘‘[1] نسخ کی حکمت : نسخ کی بہت ساری حکمتیں ہیں ‘ ان میں سے: [2] ۱: لوگوں کی مصلحتوں کی رعایت ، کہ ان کے لیے وہ چیز مشروع کی جاتی ہے جو ان کی دنیا اور دین کے لیے زیادہ فائدہ مند ہے۔ [3] ۲: تشریع میں تطور ‘ یہاں تک کہ وہ کمال کو پہنچ جائے۔ ۳: مکلفین کا امتحان : اس استعداد کے لیے کہ وہ ایک حکم سے دوسرے حکم کوقبول کرنے کے لیے تیار اور اس پر راضی ہیں ۔[4] ۴: مکلفین کے شکر گزار ہونے کا امتحان جب کہ نسخ کسی سخت حکم سے خفیف کی طرف ہو۔ ( جیسا کہ آیاتِ مصابرہ میں ہے )۔ اور صبر کا امتحان جب پہلے سے سخت حکم آئے یا اس کے مساوی ہو۔ ( جیساکہ استقبال قبلہ میں کعبہ کی طرف مڑنے کا حکم ہے )۔
[1] رواہ احمد( ۳/۲۳۷/۱۳۵۱۲)؛ و ابو یعلی (۶/۳۷۳/۳۷۰۷) ، ہیثمی نے ’’المجمع ‘‘ (۵/۶۶) میں کہا ہے :’ اس کی سند میں یحی بن عبد اللہ الجابر ہے ‘ اسے جمہور نے ضعیف کہا ہے ‘ اور امام احمد فرماتے ہیں : ’’لابأس بہ‘‘۔ اس سے روایت کرنے میں کوئی حرج نہیں ‘ اورباقی رجال ثقات ہیں ۔ اس قسم کے نسخ کی مثال دیکھنے کے لیے مسلم میں کتاب الجنائز میں (۹۷۷) میں بھی یہ حدیث موجود ہے ‘ پہلے گزر چکی ہے ۔ [2] جس کی حکمت نہ جانی جاسکے ‘ یا سمجھ میں نہ آئے ‘ اس کے متعلق علماء کرام رحمہم اللہ لکھتے ہیں وہ تعبد کے لیے ہے ‘ اس مطلب یہ کہ اس کے سامنے خاموشی سے سرِ تسلیم خم کرلینا ‘ اور اس کو حکم ِ الٰہی مانتے ہوئے اس پر عمل کرنا ہی تعبد ہے ۔ [3] کیونکہ لوگوں کی مصلحتیں امتوں کے لحاظ سے ‘ اور زمانے کے لحاظ سے ‘ اور جگہ کے لحاظ سے ‘ اور حال کے لحاظ سے اور اشخاص کے لحاظ سے مختلف ہوتی ہیں۔ [4] اگر کوئی یہ بات کہے کہ : کیا اللہ تعالیٰ شکر گزاروں کو نہیں جانتا کہ وہ اب ان کاامتحان لے رہا ہے ؟۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ وہ شکر گزاروں اور تقوی داروں کو جانتا ہے ۔ لیکن اس کے فقط علم پر جزاء و سزاء مرتب نہیں ہوتے ؛ یہاں تک کہ عملی طور پر شکر گزار اور تقوی دار پائے جائیں ۔