کتاب: اصول فقہ(عثیمین) - صفحہ 80
’’اب اللہ نے تم پر تخفیف کر دی اور معلوم کر لیا کہ ابھی تم میں کمزوری ہے پس اگر تم میں ایک سو ثابت قدم رہنے والے ہوں گے تو دوسو پر غالب رہیں گے او ر اگر ایک ہزار ہوں گے تو اللہ کے حکم سے دوہزار پر غالب رہیں گے ۔‘‘
۲: وہ احکام جن میں ہر زمانے اور جگہ کی مصلحت ہو۔ جیسا کہ توحید ‘ اصول ِ ایمان، اصول ِ عبادات ، مکارمِ اخلاق جیسے سچائی اور پاکدامنی ‘ بہادری اور کرم نوازی اور اس طرح کے دیگر اخلاق۔ ان کے حکم کا منسوخ ہونا ممکن نہیں ہے۔ ایسے ہی کسی ممانعت کا نسخ ہونا بھی ممکن نہیں ہے جو ہر زمانے اور جگہ میں بری ہو‘ جیسے شرک ‘ کفر ‘ برے اخلاق میں سے جھوٹ ‘ فجور ، بخل ‘ بزدلی، اور ان جیسے امور۔ اس لیے کہ تمام شرائع بندوں کی مصلحتوں پرمشتمل ہیں ‘ جس میں ان سے مفاسد کو دور رکھا جاتا ہے ۔
نسخ کی شرائط :
جس چیز میں نسخ ممکن ہو‘ اس میں نسخ کے واقع ہونے کی شرائط ہیں ‘ ان میں سے :
۱: دو دلیلوں کے درمیان جمع ممکن نہ ہو۔اگر جمع ممکن ہو تو(ان میں جمع واجب ہوجاتا ہے) اس وقت کوئی نسخ نہیں ہوگا کیونکہ ان دونوں میں سے ہر ایک دلیل پر عمل ممکن ہے۔[1]
۲: ناسخ کے متأخر ہونے کا علم ہو۔ یہ علم یا تو نص سے حاصل ہوسکتا ہے ‘ یا صحابی کے بتانے سے ‘ یا پھر تاریخ جاننے سے۔[2]
اس کی مثال جس کے متأخر ہونے کا علم نص سے ہوتا ہے ‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے :
((کنت أذنت لکم في استمتاع من النساء ‘ وإن اللّٰہ قد حرم ذلک إلی یوم القیامۃ۔))[3]
[1] کیونکہ دعویٔ نسخ میں دو دلیلوں میں سے ایک کا ابطال لازم آتا ہے ‘ اور کتاب اللہ اور حدیث رسول اللہ میں سے کسی دلیل کو باطل کرنا کسی طرح بھی جائز نہیں ۔ہاں ایسی ضرورت پیش آجائے کہ دلائل میں جمع ممکن نہ ہو۔ اسی لیے علماء کرام رحمہم اللہ فرماتے ہیں : ’’ مسلمان پر واجب ہے کہ وہ نسخ کا دعوی کرنے یا حکم لگانے میں جلدی نہ کرے ۔
[2] نسخ کا حکم لگانے کے لیے متقدم او رمتأخر کا علم ہونا بہت ضروری ہے ۔ اگر یہ علم حاصل نہ ہوتو اس وقت تووقف کرنا واجب ہوجاتا ہے ۔ اس لیے کہ نسخ رفع حکم ہے ‘ اور اس کے لیے ضروری ہے کہ مرفوع پہلے سے موجود ہو۔
[3] رواہ مسلم (۱۴۰۶) کتاب النکاح‘۳۔باب المتعۃ وبیان أنہ أبیح ثم نسخ ثم أبیح ثم نسخ و استقر تحریمہ إلی یوم القیامۃ۔ وأحمد (۳/۴۰۵/۱۵۳۸۷)۔