کتاب: اصول فقہ(عثیمین) - صفحہ 79
نیز فرمایا : ﴿فَالئٰنَ بَاشِرُوھُنَ﴾ (البقرہ:۱۸۷) ’’اور اب تم ان سے مباشرت کرو۔‘‘ یہ نص ہے سابق حکم کے تبدیل ہونے میں ۔ ۳: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ((کنت نہیتکم عن زیارۃ القبور فزوروہا۔))[1] ’’ میں تمہیں قبروں کی زیارت سے منع کیا کرتا تھا ‘ اب ان کی زیارت کیا کرو۔‘‘ امتناع نسخ کے اسباب : بذیل امور میں نسخ ممتنع ہوتا ہے : ۱: اخبار ، کیونکہ نسخ کا محل حکم میں ہوتا ہے۔ اور اس لیے کہ اخبار میں نسخ دو میں سے ایک خبر کے جھوٹے ہونے کو مستلزم ہے۔ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی خبروں میں جھوٹ کا ہونا محال ہے۔ سوائے اس کے کہ کوئی حکم خبر کی صورت میں ہو۔ تو اس وقت نسخ ممنوع نہیں ہوتا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿ إِن یَکُن مِّنکُمْ عِشْرُونَ صَابِرُونَ یَغْلِبُواْ مِئَتَیْنِ ﴾ (الانفال:۶۵) ’’اگر تم میں بیس آدمی ثابت قدم رہنے والے ہوں گے تو دوسو پر غالب رہیں گے۔‘‘ بیشک اس خبر کا معنی امر ( حکم )ہے۔ اسی لیے اس کے بعد والی آیت میں نسخ ہے ‘ فرمایا : ﴿الآنَ خَفَّفَ اللّٰهُ عَنکُمْ وَعَلِمَ أَنَّ فِیْکُمْ ضَعْفاً فَإِن یَکُن مِّنکُم مِّئَۃٌ صَابِرَۃٌ یَغْلِبُواْ مِئَتَیْنِ وَإِن یَکُن مِّنکُمْ أَلْفٌ یَغْلِبُواْ أَلْفَیْنِ … ﴾ (الانفال:۶۶)
[1] رواہ مسلم ‘(۹۷۷) کتاب الجنائز ‘ باب استئذان النبی صلي الله عليه وسلم ربہ عزو جل في زیارۃ قبر امہ ‘‘۔ وانظر: کتاب الأضاحي ‘ ۵-باب بیان ماکان من النبي عن أکل لحوم الإضاحي بعد ثلاث في أول الإسلام وبیان نسخہ وإباحتہ إلی متی شاء ۔