کتاب: اصول فقہ(عثیمین) - صفحہ 78
اور ہمارے قول: ’’بدلیل من الکتاب و السنۃ‘‘ سے اس کے علاوہ امور خارج ہوئے ، جیسا کہ اجماع اور قیاس ‘ ان سے ان دونوں کا نسخ نہیں ہوگا۔ نسخ عقلا ً جائز اور شرعاً واقع ہے۔ عقل سے اس کا جواز : کیونکہ امر اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے ۔اور حکم اسی کے لیے ہے۔ اور اس لیے بھی کہ بیشک وہی مالک بادشاہ ہے۔ اس کو اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنے بندوں کے لیے اپنی رحمت اور حکمت کے مقتضی کے مطابق مشروع کرے۔ کیاعقل اس بات سے منع کرتی ہے کہ مالک اپنے غلام کو جو چاہے حکم دے ؟۔ اور پھر یہ کہ اللہ تعالیٰ کی حکمت اور اس کی اپنے بندوں پر رحمت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اس چیز کو بندوں کے لیے مشروع کرے جس سے ان کے دین اور دنیاکی مصلحتیں قائم ہیں ۔ اور یہ مصلحتیں بندوں کے احوال اور زمانے کے اختلاف کے لحاظ سے مختلف ہوتی ہیں ۔ کبھی کوئی حکم کسی حال اور کسی وقت میں بندوں کی مصلحت کے بہت مطابق ہوتا ہے۔اور کوئی دوسرا حکم دوسرے وقت اور حال میں زیادہ مناسب ہوتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ ہی علم و حکمت والا ہے۔ نسخ کا شرعاً وقوع : اور نسخ کے شرعاً واقع ہونے کے لیے کئی دلائل ہیں ‘ ان میں سے : ۱: اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿ مَا نَنسَخْ مِنْ آیَۃٍ أَوْ نُنسِہَا نَأْتِ بِخَیْرٍ مِّنْہَا أَوْ مِثْلِہَا﴾ (البقرہ:۱۰۶) ’’ ہم جس آیت کو منسوخ کر دیتے یا اس کو فراموش کرا دیتے ہیں تو اُس سے بہتر یا ویسی ہی اور آیت بھیج دیتے ہیں ۔‘‘ ۲: اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿الآنَ خَفَّفَ اللّٰهُ عَنکُمْ﴾ (الانفال:۶۶) ’’ اب اللہ تعالیٰ نے تم پر تخفیف کردی ہے ‘‘ ۔