کتاب: اصول فقہ(عثیمین) - صفحہ 74
ظاہر اور مؤوَّل
ظاہر کی تعریف:
ظاہر : لغت میں واضح اور کھلے ہوئے کو کہتے ہیں ۔
اصطلاح میں …:
’’ ما دل بنفسہ علی معنی راجح مع احتمال غیرہ۔‘‘
’’ ظاہر وہ ہے جودوسرے احتمال کے باوجود اپنے راجح معنی پرخو د ہی دلالت کرے ۔ ’’ [1]
اس کی مثال: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :
’’اونٹوں کے گوشت سے[کھانے کے بعد] وضو کرو ۔‘‘[2]
بیشک اس میں ظاہر تو یہ ہے کہ وضو سے مراد اپنے چار اعضاء کو شرعی صفت کے مطابق دھونا ہے ، نہ کہ وہ وضوء جو نظافت کے معنی میں مستعمل ہے ۔
پس ہمارے قول : ’’ ما دل بنفسہ علی معنی۔‘‘ سے مجمل خارج ہوا ، کیونکہ مجمل خود اپنے معنی پر دلالت نہیں کرتا۔
اورہمارے قول: ’’ راجح‘‘ سے مؤول خارج ہوا، کیونکہ اگر قرینہ نہ ہوتو یہ معنی مرجوح
[1] ظاہر کی علامت یہ ہے کہ ذہن فوری طور پر اس کی طرف منتقل ہوتا ہے ۔ اس بنا پر شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ قرآن یا لغت میں کوئی مجاز نہیں ہیں ؛ کیونکہ مجاز وہ ہے جس میں اس کا خلاف راجح نہ ہو ۔
[2] رواہ أحمد(۴/۳۵۲) وہو عند أبي داؤد (۱۸۴) کتاب الطہارۃ؛ باب الوضوء من لحوم الإبل من حدیث البراء وغیرہا من المصنفین۔ وہو في مسلم (۳۶۰) کتاب الحیض’۲۵-باب الوضوء من لحوم الإبل من حدیث جابر ۔