کتاب: اصول فقہ(عثیمین) - صفحہ 71
’’نماز قائم کرو‘اور زکوٰۃ ادا کرو۔‘‘ اس میں قائم کرنا اورزکواۃ ادا کرنا دونوں مجمل ہیں ۔لیکن شارع نے اس کو بیان کیا ہے۔ اس وضاحت کے بعد دونوں لفظ واضح ہوگئے ہیں ۔ مجمل پر عمل : مکلف پر واجب ہے کہ جب بھی اس کے لیے اس مجمل کی وضاحت ہوجائے وہ مجمل پر عمل کرنے کا پختہ عزم کرے۔ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کے لیے اپنی شریعت کے تمام اصول و فروع واضح کردیے ہیں ۔ یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو ایک صاف وسفیدشریعت پر چھوڑا ‘ جس کی رات بھی اس کے دن کی طرح روشن ہے ۔کسی چیز کے بیان کو اس کی ضرورت کے وقت پر ترک نہیں کیا۔ [1] نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بیان یا توقول سے ہوتاتھا ‘ یا فعل سے ‘ یا قول اور فعل دونوں سے۔ ( یا کسی کام کے ترک کرنے سے )۔ رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول سے بیان کی مثال : آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا زکوات کے نصاب کے اور اس کی مقدار کے بارے میں خبر دیناہے۔ جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ((فیما سقت السماء العشر ۔)) [2] ’’ جس کو بارش سے پانی ملے اس میں دسواں حصہ ہے ۔‘‘ یہ بیان ہے اللہ تعالیٰ کے اس مجمل فرمان کا : ﴿ و أتوا الزکاۃ ﴾ (البقرہ:۴۳) ’’ اور زکوٰۃ ادا کرو۔‘‘
[1] قاعدہ یہ ہے کہ: ’’ لا یجوز تاخیر البیان عن وقت الحاجۃ‘‘۔’’ ضرورت کے وقت سے بیان میں تاخیر کرنا جائز نہیں ہے ‘‘۔ شریعت نے ہر ایک چیز کو بیان کردیا ہے ‘ لیکن کبھی انسان سے کوئی چیز مخفی رہتی ہے ‘ اس کے کئی ایک اسباب ہیں : (۱)… علم میں کمی (۲)… سمجھنے میں غلطی (۳)… طلب علم میں کوتاہی (۴)… برا ارادہ ۔ (۵)… گناہوں کی پلیدی ( جس سے دلوں پر پردے پڑ جاتے ہیں ۔ [2] رواہ البخاری(۱۴۸۳) کتاب الزکاۃ‘ باب العشر فیما یسقی من ماء السماء وبالماء الجاري۔