کتاب: اصول فقہ(عثیمین) - صفحہ 69
مجمل اور مبین [1]
مجمل کی تعریف :
مجمل لغت میں مبہم اور مجموع کو کہتے ہیں ۔
اصطلاح میں …:
’’ ما یتوقف فہم المراد منہ علی غیرہ ‘إما في تعیینہ أو بیان صفتہ أو مقدارہ۔‘‘
’’ مجمل وہ ہے جس کی مراد کا سمجھنا دوسرے پر موقوف ہو‘ یا تو اس کے متعین ہونے میں ‘ یا اس کی صفت کے بیان میں یا مقدار کے بیان میں ۔‘‘
اس کی مثال جو اپنے متعین ہونے میں دوسرے کا محتاج ہو‘ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے :
﴿ وَالْمُطَلَّقَاتُ یَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِہِنَّ ثَلاَثَۃَ قُرُوَئٍ ﴾ (البقرہ:۲۲۸)
’’ اور طلاق والی عورتیں تین ’’قرؤ‘‘ تک اپنے تئیں روکے رہیں ۔‘‘
یہاں پر لفظ ’’قروء‘‘ یہ مشترک ہے حیض اور طہر میں ۔ تو ان میں سے کسی ایک متعین ہونے کے لیے اس کی دلیل کی ضرورت ہوتی ہے۔ [2]
[1] مجمل کے دو فائدے ہیں : (۱)… نفوس کو اس حکم کے لیے تیار کرنا ۔ (۲)… اس کے بیان کے لیے قوت ِ حاجت۔ جب مجمل نفس پر وارد ہوتا ہے تو اس حکم کے بیان کوپانے کے لیے شوق بہت بڑھتا ہے ۔ نیز اس طرح سے حاصل ہونے والا حکم دلوں میں زیادہ راسخ ‘ اور پائیدار اور باقی رہنے والا ہوتا ہے ۔
[2] یہاں پر درست قول یہی ہے کہ اس سے مراد حیض ہے ۔کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مستحاضہ کے متعلق فرمایا تھا: ’’ لتجلس أقرء ھا ‘‘ اسے چاہیے کہ وہ اپنے حیض کی مدت بیٹھی رہے ‘‘۔ اس سے مرادیہ ہے کہ وہ اپنے حیض کی مدت بیٹھی رہے ۔
(قاعدہ ): مشترک لفظ کو متعین میں استعمال کرنا جائز ہے ‘ سوائے اس کے کہ ان کے درمیان کوئی تضاد نہ ہو۔