کتاب: اصول فقہ(عثیمین) - صفحہ 67
﴿فَتَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ مُّؤْمِنَۃٍ ﴾ (النساء:۹۲)
’’تو صرف ایک مسلمان غلام آزاد کرنا چاہیے۔‘‘
ہمارے قول : ’’قید‘‘ سے مطلق خارج ہوا ۔
مطلق پر عمل :
(قاعدہ) : مطلق پر اس کے اطلاق کیساتھ ہی عمل کرنا واجب ہے ‘ سوائے اس کے کہ کوئی دلیل اس کے مقید ہونے پر دلالت کرے۔
(قاعدہ): کیونکہ کتاب و سنت کی نصوص پر ان کی دلالت کے مقتضی کے موجب عمل کرنا واجب ہوتا ہے ‘ یہاں تک کے اس کے خلاف دلیل قائم ہوجائے ۔
(قاعدہ) : جب ایک نص مطلق وارد ہو‘ اور دوسری نص مقیدتو اس سے دوسری مطلق نص کو مقید کرنا واجب ہو جاتا ہے ، (لیکن اس شرط کیساتھ کہ ) ان دونوں کا حکم ایک ہو۔اگر ایسا نہ ہو تو ان میں سے ہر ایک پر اس کے مطلق اور مقید ہونے کے اعتبار سے عمل کیا جائے گا۔
مطلق اور مقیددونوں کا حکم ایک ہونے کی مثال: ظہار کے کفار ہ میں فرمان ِ الٰہی ہے :
﴿ فَتَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ مِّن قَبْلِ أَن یَتَمَاسَّا﴾ (المجادلۃ:۳)
’’ (ان کو) ہمبستر ہونے سے پہلے ایک غلام آزاد کرنا ہوگا ۔‘‘
اور قتل کے کفارہ میں ‘ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿فَتَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ مُّؤْمِنَۃٍ ﴾ (النساء:۹۲)
’’تو صرف ایک مسلمان غلام آزاد کرنا چاہیے۔‘‘
دونوں جگہ حکم ایک ہی ہے ‘ یعنی ایک گردن کو آزاد کیا جائے ۔لیکن ظہار کے کفارہ میں واجب ہے کہ اس مطلق کو مقید کیا جائے ‘ اس چیز سے جس سے قتل کے کفارہ میں مقید کیا گیا ہے ‘ یعنی ایمان۔ ان دونوں میں آزادی کے لیے غلام کا مومن ہونا شرط ہے۔
اس کی مثال کہ مطلق اور مقید دونوں میں حکم ایک نہ ہو‘ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے :
﴿ وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَۃُ فَاقْطَعُواْ أَیْدِیَہُمَا ﴾ (المائدہ:۳۸)