کتاب: اصول فقہ(عثیمین) - صفحہ 65
(یقین رکھتے ہیں ) اور نہ ان چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں جو اللہ اور اس کے رسول نے حرام کی ہیں اور نہ دین ِ حق کو قبول کرتے ہیں ان سے جنگ کرو یہاں تک کہ ذلیل ہو کر اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں ۔‘‘ اور سنت کی سنت سے تخصیص کرنے کی مثال : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : ((فیما سقت السماء العشر۔))[1] ’’ جس کو بارش سے پانی ملے اس میں دسواں حصہ ہے ۔‘‘ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے خاص کیا گیا ہے : ((لیس فیما دون خمسۃ أوسق صدقۃ۔))[2] ’’ جو (غلہ/ فصل )پانچ اوسق سے کم ہو ‘ اس میں صدقہ (زکوات ) نہیں ہے ۔‘‘ اورمیں نے سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اجماع سے خاص کرنے کی کوئی مثال نہیں پائی۔[3] سنت کی قیاس سے تخصیص کی مثال : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے : ((البکر بالبکر جلد مئۃ و تغریب عام ۔))[4] ’’ کنوارے کو کنواری کیساتھ (پانے پر ) سودرے مارے جائیں اور ایک سال کے لیے علاقہ بدر کیا جائے ۔‘‘ اسے خاص کیا گیا ہے غلام کو لونڈی پر قیاس کرتے ہوئے عذاب کے آدھا ہونے میں ۔ اس میں پچاس کوڑوں پر قصر کرنا مشہور ہے۔
[1] رواہ البخاری(۱۴۸۳) کتاب الزکاۃ‘۵۵- باب العشر فیما یسقی من ماء السماء وبالماء الجاري۔ [2] رواہ البخاری(۱۴۸۴) کتاب الزکاۃ‘ ۵۶-باب لیس فیما دون خمسۃ أوسق صدقۃ۔ ومسلم (۹۷۹) کتاب الزکاۃ ‘۳-بلا باب ۔ [3] جب کتاب اللہ کو اجماع سے خاص کیا جاسکتا ہے تو سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بالأولی اجماع سے خاص کیا جا سکتا ہے۔ [4] رواہ مسلم (۱۶۹۰) کتاب الحدود ‘۳-باب حد الزنی۔ واحمد (۵/۳۱۳/۲۲۷۱۸) ولفظ التغریب عند ابن ماجۃ (۲۵۵۰) کتاب الحدود‘ ۷-باب حد الزنا۔