کتاب: اصول فقہ(عثیمین) - صفحہ 63
﴿وَالْمُطَلَّقَاتُ یَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِہِنَّ ثَلاَثَۃَ قُرُوَئٍ ﴾ (البقرہ:۲۲۸) ’’اور طلاق والی عورتیں تین حیض تک اپنے تئیں روکے رہیں ۔‘‘ اس کو اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے خاص کیا گیا ہے : ﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا إِذَا نَکَحْتُمُ الْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوہُنَّ مِن قَبْلِ أَن تَمَسُّوہُنَّ فَمَا لَکُمْ عَلَیْہِنَّ مِنْ عِدَّۃٍ تَعْتَدُّونَہَا﴾ (الاحزاب:۴۹)ٖ ’’مومنو! جب تم مومن عورتوں سے نکاح کر و؛پھراُن کو ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دیدو تو تم کو کچھ اختیار نہیں کہ اُن سے عدت پوری کراؤ ۔‘‘ کتاب اللہ کی سنت سے خاص ہونے کی مثال آیت ِ میرا ث سے ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿ یُوصِیْکُمُ اللّٰهُ فِیْ أَوْلاَدِکُمْ لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الأُنثَیَیْنِ﴾ (النساء:۱۱) ’’اللہ تمہاری اولاد کے بارے میں تمہیں ارشاد فرماتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے حصے کے برابر ہے۔‘‘ اور اس جیسی آیات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث سے خاص کیا گیا ہے : ((لا یرث المسلم الکافر ولا الکافر المسلم۔))[1] ’’ نہ کوئی مسلمان کسی کافر کا وارث بنے گا اور نہ ہی کافر مسلمان کا وارث بنے گا ‘‘[2] اجماع سے کتاب اللہ کی تخصیص کی مثال : اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے: ﴿ وَالَّذِیْنَ یَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ یَأْتُوا بِأَرْبَعَۃِ شُہَدَائَ فَاجْلِدُوہُمْ ثَمَانِیْنَ جَلْدَۃً ﴾ (النور:۴)
[1] رواہ البخاري (۴۲۸۳) کتاب المغازي‘ ۴۸-باب أین رکز النبي صلي الله عليه وسلم الرایۃ یوم الفتح۔ ومسلم (۱۶۱۴) کتاب الفرائض بلا باب أول حدیث فیہ۔ [2] قرآن کو حدیث سے خاص کیا جاسکتا ہے ‘ اس پر اجماع ہے ۔ لیکن کیا قرآن کو سنت سے منسوخ کیا جاسکتا ہے؟ یہ محل خلاف ہے ۔ اس لیے کہ تخصیص بھی حکم کو جزوی طور پر ختم کرنا ہے ‘ جب کہ نسخ میں کلی طور پر ختم کیا جاتا ہے ۔ صحیح یہ ہے کہ قرآن سنت سے منسوخ ہوسکتا ہے۔