کتاب: اصول فقہ(عثیمین) - صفحہ 61
اور متأخر کی مثال : اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے : ﴿وَالَّذِیْنَ یَبْتَغُونَ الْکِتَابَ مِمَّا مَلَکَتْ أَیْمَانُکُمْ فَکَاتِبُوہُمْ إِنْ عَلِمْتُمْ فِیْہِمْ خَیْراً ﴾ (النور:۳۳) ’’اور جو غلام تم سے مکاتبت چاہیں تو ان سے مکاتبت کر لو ؛اگر تم ان میں (صلاحیت اور) نیکی پاؤ۔‘‘ سوم: صفت: [1] ’’صفت وہ ہے جس سے ایسے معانی کا شعور ہو جو عام کے بعض افراد کو خاص کر دے ، صفت ‘ بدل ‘ یا حال کی وجہ سے ‘‘۔[2] صفت کی مثال ‘ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے : ﴿ فَمِن مِّا مَلَکَتْ أَیْمَانُکُم مِّن فَتَیَاتِکُمُ الْمُؤْمِنَاتِ﴾ (النساء:۲۵) ’’ جو تمہارے قبضے میں آگئی ہوں تو تمہاری مومن لونڈیوں میں سے (ان سے نکاح کر لیا جائے) ۔‘‘ [3] اور بدل کی مثال اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے : ﴿ وَلِلّہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَیْہِ سَبِیْلاً ﴾(آل عمران:۹۷) ’’ اور لوگوں پر اللہ تعالیٰ کا حق (یعنی فرض) ہے کہ جو اس گھر تک جانے کا مقدور رکھے وہ اُس کا حج کرے ۔‘‘[4] اور حال کی مثال اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے :
[1] مخصص کی اس قسم میں شرط یہ ہے کہ یہ ایک ہی متکلم کی طرف سے ہو‘ اور یہ کہ موصوف اور صفت کے بیان میں اتنا فاصلہ نہ ہی جس سے اس کو ختم کیا جاسکے ۔ [2] یہ صفت اہل نحو کی صفت سے مختلف ہے ۔نحوی صفت صرف ’’ نعت ‘‘(وصف )کو کہتے ہیں ‘ جب کہ اصولیوں کے ہاں یہ اس سے عام ہے ‘ بدل اور حال کو بھی شامل ہے ‘‘۔ [3] آیت کریمہ میں لونڈیوں کی مومن صفت بیان کی گئی ہے ‘ جو عام کو خاص کرتی ہے ۔ [4] آیت میں یہاں پر’’ من استطاع ‘‘ بدل ہے ’’ الناس ‘‘ سے ؛ جو اس عام کو خاص کرتا ہے ۔