کتاب: اصول فقہ(عثیمین) - صفحہ 60
رہ گیا کل کا استثنا ء کرنا؛ تو یہ (سابقہ )دونوں قول کے مطابق درست نہیں ہوگا۔‘‘ اگر کسی نے کہا کہ مجھ پر دس درہم واجب الاداء ہیں سوائے دس کے۔ تو اس پر دس درہم ہی لازم آئیں گے۔ یہ اس وقت ہوگا جب استثناء عدد میں ہو۔ اگر یہ استثناء صفت میں ہو تو درست ہوگا ، خواہ اس سے سارے کے سارے کا استثناء کیا جائے یا اکثر حصہ کا۔ اس کی مثال : ابلیس سے اللہ تعالیٰ کا کہنا ہے : ﴿إِنَّ عِبَادِیْ لَیْسَ لَکَ عَلَیْہِمْ سُلْطَانٌ إِلاَّ مَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْغَاوِیْنَ﴾ (الحجر:۴۲) ’’جو میرے (مخلص) بندے ہیں اُن پر تجھے کچھ قدرت نہیں (کہ اُن کو گناہ میں ڈال سکے) ہاں جوبھٹکے ہوئے تیرے پیچھے چل پڑے۔‘‘ ابلیس کے پیچھے چلنے والے بنی آدم میں نصف سے زیادہ ہیں ۔اگر آپ کسی سے کہیں کہ: ’’ گھر میں جو بھی ہے ان کو عطیہ دو سوائے مالدار لوگوں کے ۔‘‘ بعد میں یہ ظاہر ہو کہ گھر میں سب کے سب مالدار ہیں تو یہ استثناء درست ہوگا۔ انہیں کچھ بھی نہیں دیا جائے گا۔ دوم: مخصص متصل میں سے: شرط ہے۔شرط : لغت میں : علامت کو کہتے ہیں ۔یہاں پر اس سے مراد : کسی چیز کے وجود یاعدم کو دوسری چیز سے معلق کرنا، أنْ شرطیہ یا اس کی کسی( اخوات)ہم عمل سے ‘‘۔[1] شرط خاص کرنے والی ہوتی ہے خواہ وہ متقدم ہو یا متأخر۔ (اور شرط کی شرائط وہی ہیں جو استثنا کی ہیں )۔ متقدم کی مثال: مشرکین کے متعلق اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے: ﴿ فَإِن تَابُواْ وَأَقَامُواْ الصَّلاَۃَ وَآتَوُاْ الزَّکَاۃَ فَخَلُّواْ سَبِیْلَہُمْ﴾ (التوبہ:۵) ’’ اگر وہ توبہ کر لیں اور نماز پڑھنے اور زکوٰۃ دینے لگیں تو ان کی راہ چھوڑ دو۔‘‘
[1] ہم عمل سے مراد: إن ‘ إذا ؛ متی ؛ أین ؛ أیان ؛ وغیرہ ہیں ۔