کتاب: اصول فقہ(عثیمین) - صفحہ 59
اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ: ’’ خاموش ہونے کے ساتھ استثناء درست ہے، یا فاصل ہو مگر کلام ایک ہو( تو بھی استثناء درست ہے )، اس لیے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے : بیشک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے موقع پر فرمایا: ((إن ھذا البلد حرمہ اللہ یوم خلق السموات و الأرض ‘ لا یعضد شوکہ ‘ و لا یختلی خلاہ۔)) [1] ’’ بیشک یہ شہر اللہ تعالیٰ نے اس کو اس دن سے حرام ٹھہرایا ہے جب اس نے زمین و آسمان کو پیدا کیا۔ نہ ہی اس کا کانٹا کاٹا جائے گا ‘ اور نہ ہی اس کی ہری گھاس کاٹی جائے گی ۔‘‘ ’’(اس پر ) حضرت عباس رضی اللہ عنہ کھڑے ہوگئے اور عرض کیا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سوائے اذخر کے (اذخر گھاس کی ایک قسم ہے )۔یہ ان کے گھروں اور قبروں کے لیے ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ سوائے اذخر کے ۔‘‘ یہ قول اس حدیث کی دلالت کی وجہ سے ارجح ہے۔ ۲: یہ کہ مستثنی مستثنی منہ کے نصف سے زیادہ نہ ہو۔ اگر کسی نے یہ کہا کہ : ’’ اس کے دس درہم مجھ پر ہیں سوائے چھ کے۔ تو یہ استثناء درست نہیں ہوگا ‘ اور اس پر تمام دس درہم ادا کرنا ہی لازم ہوں گے۔[2] یہ بھی کہا گیا ہے کہ : یہ شرط نہیں ہے ‘ استثناء درست ہوگا ۔اگرچہ مستثنیٰ منہ کے نصف سے زیادہ ہی کیوں نہ ہو۔ ، تو مثال مذکور کی بنا پر اس پر چار درہم ہی واجب الاداء ہوں گے۔[3]
[1] بخاری (۱۳۴۹) کتاب الجنائز ‘ ۷۷-باب الإذخر والحشیش في القبر ‘ ومسلم (۱۳۵۲) کتاب الحج ‘ ۸۲- باب تحریم مکۃ وصیدہا وخلاہا وشجرہا ولقطتہا إلا المنشد علی الدوام ۔ [2] اس کی علت یہ ہے کہ: (۱)… یہ کلام عرب میں فصاحت کے خلاف ہے ۔ (۲)… جب آپ یہ کہیں کہ اس کے دس درہم واجب الاداء ہیں سوائے چھ کے ‘ تو یہ کیوں نہیں کہا کہ :’’ دس درہم واجب الاداء ہیں سوائے چار کے۔‘‘ [3] ان لوگوں کا کہنا ہے کہ : ’’ جب تک کلام کا درست ہونا ممکن ہو تو واجب ہے کہ اسے صحیح کہا جائے گا ۔ اور اس لیے بھی کہ منطق او رکلام میں کلام کی صحت و درستی ہے ‘ سوائے اس کے کہ اس کے بطلان پر کوئی دلیل دلالت کرے۔‘‘