کتاب: اصول فقہ(عثیمین) - صفحہ 55
ثابت ہوجائے ۔اس لیے کہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نصوص پر عمل اس کی دلیل کے مقتضی کے لحاظ سے واجب ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کے خلاف دلیل قائم ہوجائے۔ اور جب عام کسی خاص سبب پر وارد ہوتو اس کے عموم پر عمل کرنا واجب ہوجاتا ہے۔ کیونکہ قاعدہ یہ ہے کہ : ’’ العبرۃ بعموم الفظ لا بخصوص السبب۔‘‘ ’’ اعتبار عموم لفظ سے ہوتا ہے نہ کہ خصوص سبب سے ۔‘‘ سوائے اس کے کہ کوئی دلیل اس عام کے خاص ہونے پر دلالت کرے ، جو اس سبب کے حال سے مشابہ ہو‘ جس کی وجہ سے یہ نص وارد ہوئی ہے ۔تو اسے اس کے ساتھ مختص کیا جائے گا جو اس سے مشابہ ہے۔ [1] جس کی تخصیص پر کوئی دلیل نہیں ہے ‘ اس کی مثال : ’’ آیات ِ ظہار ‘‘ہے۔ سو یہ آیت اوس بن صامت رضی اللہ عنہ کے’’ ظہار‘‘ کی وجہ سے نازل ہوئی تھیں ۔لیکن اس کا حکم ان کے لیے اور باقی لوگوں کے لیے عام ہے۔ اور اس کی مثال جس کے خاص ہونے پر دلیل دلالت کرتی ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : ((لیس من البر الصیام في السفر۔))[2] ’’ سفر میں روزہ رکھنا نیکی میں سے نہیں ہے ۔‘‘ بیشک اس کا سبب یہ ہے کہ :’’ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی سفر میں تھے۔ آپ نے ایک بھیڑ دیکھی ، ایک آدمی پر سایہ کیا گیا تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ یہ کیا ماجرا ہے ‘‘؟۔ لوگوں نے
[1] یہ استثناء عموم احوال کا ہے نہ کہ عموم اشخاص کا۔ [2] رواہ البخاري(۱۹۴۶) کتاب الصوم‘ ۳۶- باب قول النبی صلي اللّٰه عليه وسلم لمن ظلل علیہ و اشتد الحر ’’لیس من …‘‘۔ ومسلم(۱۱۱۵) کتاب الصوم ۱۵-باب جواز الصوم والفطر في شھر رمضان للمسافر في غیر المعصیۃ إذا کان سفرہ مرحلتین أو أکثر۔