کتاب: اصول فقہ(عثیمین) - صفحہ 48
جیسے وہ انسان جسے کفر پر مجبور کیا جائے ‘ مگر اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو۔ اور جس انسان کو واجب کے ترک کرنے پر مجبور کیا جائے تو اس اکراہ کی حالت میں اس پر کوئی حرج نہیں ہے۔ اس پر اس واجب کی قضاء ہے جب بھی اس سے یہ اکراہ ختم ہوجائے۔ جیسے وہ شخص جسے نماز ترک کرنے پر مجبور کیا جائے ‘ یہاں تک کہ اس کا وقت نکل جائے۔ سو بیشک اس پر اس کی قضاء لازم ہے جب وہ اکراہ ختم ہوجائے۔ ‘‘[1]
[1] مسألہ : مکرہ کی دو قسمیں ہیں : (۱)… مکرہ ملجاء : وہ ہے جس کو کسی ایسی چیز پر مجبور کیا جائے ‘ جس پر وہ راضی نہ ہو‘ اور وہ اسے نا پسند کرتا ہو‘ اور اس چیزپر قدرت کا تعلق بھی اس سے نہ ہو‘ اور نہ ہی اس پر اس کا کوئی اختیار ہو؛ جیسا کہ کسی انسان کو اونچی جگہ سے کسی مسلمان (یا غیر )پر گرادیا جائے ‘ جس سے وہ قتل ہوجائے؛ تو یہ (گرایا جانے والا انسان) بالاتفاق اس کا مکلف نہیں ہے ۔کیونکہ وہ ان کو منع کرنے کی قدرت نہیں رکھتا تھا ‘اس کا استعمال ایک آلہ کے طور پر ہوا ہے ۔ (۲)… مکرہ غیر ملجاء : ’’ وہ ہے جسے کسی ایسے کام پر مجبور کیا جائے جس پر وہ راضی نہ ہو‘ اور وہ اسے نا پسند کرتا ہو۔ لیکن اس چیزپر قدرت کا تعلق بھی اس سے ہو‘ اور اس پر اس کا اختیار بھی ہو؛ جیسے وہ انسان جس سے کہا جائے کہ :’’ اپنے مسلمان بھائی کو قتل کرو ورنہ ہم تمہیں قتل کردیں گے ‘‘۔
یہ انسان مکلف ہے ‘ کیونکہ اس میں مکلف ٹھہرائے جانے کی شرطیں پائی جاتی ہیں ۔اور اس کے مکلف ہونے میں کوئی مانع نہیں ہے ۔ اگر چہ وہ اس وجہ سے دوسرے مکرہ لوگوں کی طرح نہیں ہے ۔ کیونکہ اس میں تکلیف کی تمام شروط کیساتھ قدرت ؛ کمال بدن‘ ذمہ داری ؛ اور اختیار پایا جاتا ہے ۔ فقط مجبور کیا جانا (اکراہ) خطاب شرعی کے ساقط ہونے کا سبب نہیں ہوسکتا ۔خواہ کچھ بھی حال ہو۔
مسئلہ ۲-: لیکن افضل کیا ہے ؟ کیا مجبور کرنے والے کے سامنے گھٹنے ٹیک دے اور وہ کام کر گزرے جس کا اس سے مطالبہ کیا جا رہا ہے یا اس سے دور رہے اور اس کا مطالبہ پورا نہ کرے ؟۔
اس میں تفصیل ہے ۔اگر مجبور کرنے والے کی موافقت اور اس کے سامنے گھٹنے ٹیکنے سے عام مسلمانو ں کو تکلیف ہو ؛ تو اس پر واجب ہوجاتا ہے کہ وہ صبر کرے ‘ کیونکہ اس موقع پر صبر کرنا جہاد میں سے ہے ۔ اور جہاد کرنا واجب ہے ( یا تو فرض عین ہے ‘ یا فرض کفایہ یا پھر سنت )۔ جب یہ انسان جو کفر پر مجبور کیا گیا ہو‘ جب وہ کام کر گزرے جس پر اسے مجبور کیا گیا ہے ؛ تو اس وجہ سے دین کے نظام میں خلل آئے گا ۔ تو اس پر واجب یہ ہوتا ہے کہ وہ صبر کرے ‘ اگر اسے قتل کردیا گیا تو وہ شہید ہوگا ۔ کیونکہ اب معاملہ صرف اس کی جان بچانے کا نہیں ۔ بلکہ اب دین کی بقاء کا مسئلہ ہے ؛ اسے درہم برہم ہونے سے کیسے محفوظ رکھا جائے۔اس وجہ سے یہ بھی جہاد فی سبیل اللہ میں سے ہے ۔ اس کی مثال امام احمد رحمہ اللہ سے پیش آنے والے واقعات ہیں ۔ )
قاعدہ : جب مباشر اور متسبب جمع ہوجائیں تو ضمان (چٹی ) مباشر پر ہوگی؛ سوائے دو حالتوں کے :
(۱)… جب مباشر کے لیے تاوان بھرنا ممکن نہ ہو۔ (۲)… جب مباشرت سبب پر مبنی ہو ۔ مکلف بہ کے فعل کے لیے شرط ہے کہ : (۱)… مکلف مکلف بہ فعل کی حقیقت کو جانتا ہو۔ (۲)… مکلف جانتا ہو کہ یہ فعل اللہ تعالیٰ کی جانب سے مامور بہ ہے ۔ (۳)… یہ کہ وہ فعل مکلف کے اکتساب کا ثمرہ ہو۔ (۴)… یہ کہ جو فعل مکلف سے طلب کیا جارہا ہے ‘ وہ معدوم ہو۔ (۵)… یہ کہ وہ فعل مکلف کی قدرت میں ہو۔ (۶)… یہ کہ اس فعل کا مکلف ٹھہرایا گیا ہو۔