کتاب: اصول فقہ(عثیمین) - صفحہ 47
اسے ابن ماجہ اور بیہقی رحمہما اللہ نے روایت کیا ہے ‘ اور کتاب و سنت میں اس کے بہت سے شواہد ہیں ‘ جو اس کی صحت پر دلالت کرتے ہیں ۔ (۱)جہالت : عدم علم سے عبارت ہے۔ جب بھی مکلف کوئی حرام فعل اس کی حرمت سے جہالت کی بنا پر کرے گا تو اس پر کچھ مؤاخذہ نہیں ہے۔ جیسے وہ شخص جونماز میں کلام کرنے کی حرمت سے جہالت کی بناپر کلام کرے۔ اور جب بھی کوئی کسی واجب کو اس کے وجوب کے حکم سے جہالت کی بنا پر ترک کرد ے‘ تواس پر اس کی قضاء لازم نہیں ، جب اس کا وقت ختم ہوچکا ہو۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں غلطی کرنے والے -جو اس کے ارکان کو اطمینان سے ادا نہیں کررہا تھا -کو اس کی جو نمازیں گزر چکی تھیں ان کے قضاء کرنے کا حکم نہیں دیا۔ بلکہ اس کو اسی وقت کی نماز درست ادا کرنے کا حکم دیا۔‘‘[1] (۲)نسیان: اس سے مراد کسی معلوم چیز سے دل کا غافل ہوجانا ہے۔ جب بھی بھول کی وجہ سے حرام کا ارتکاب ہوجائے تو اس پر کوئی (گناہ) نہیں ۔ جیسے روزہ میں کسی نے بھول کر کچھ کھا پی لیا۔ اور جب بھی وہ بھول کر کوئی واجب ترک کر دے ‘ تو اس پر اس نسیان کی وجہ سے کوئی گناہ نہیں ۔ صرف یہ کہ جب بھی اسے یاد آئے گا، اس واجب کو ادا کرنا ہو گا۔ اس کی دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث ہے : ((من نسي صلاۃ فلیصلھا إذا ذکرھا۔)) [2] ’’ جو کوئی نماز کو بھول جائے تو جب اسے یاد آجائے تو اسے پڑھ لے ۔‘‘ (۳)اکراہ: ( کی تعریف یہ ہے کہ ) کسی شخص پر ایسی چیز کو لازم کرنا جو وہ نہیں چاہتا۔ جس انسان کو کسی حرام چیز( کے کرنے ) پر مجبور کیا جائے ‘ تو اس پر کو ئی گناہ نہیں ہے۔
[1] اس لیے کہ قاعدہ یہ ہے کہ : ’’ہر وہ حرام فعل جو اس کی حرمت کی جہالت کی وجہ سے کیا گیا ‘ تو اس پر کچھ ( عقاب یا گناہ ) نہیں ہے ؛ اور اس میں کسی قسم کا کوئی استثناء نہیں ہے ‘‘۔ [2] رواہ البخاری (۵۹۷) کتاب مواقیت الصلاۃ‘ ۳۷- باب من نسي صلاۃ فلیصلہا إذا ذکرھا؛ و لا یعید إلا تلک الصلاۃ‘‘۔ مسلم (۶۸۴) کتاب المساجد‘ ۵۵- باب قضاء الصلاۃ الفائتۃ واستحباب تعجیل قضائہا۔