کتاب: اصول فقہ(عثیمین) - صفحہ 46
’’ اے عمر و! کیا تم جانتے نہیں کہ اسلام اپنے سے پہلے کے تمام گناہوں کو مٹا دیتا ہے ۔‘‘
بیشک اس کا معاقبہ ان اعمال کے ترک کرنے پر اس وقت ہوگا جب وہ کفر کی حالت میں ہی انتقال کرجائے اور اسلام قبول نہ کرے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا مجرمین کے جواب (جب ان سے جہنم جانے کا سبب پوچھا جائے گا تو ان) کے متعلق فرمان ہے :
﴿مَا سَلَکَکُمْ فِیْ سَقَرَo قَالُوا لَمْ نَکُ مِنَ الْمُصَلِّیْنَo وَلَمْ نَکُ نُطْعِمُ الْمِسْکِیْنَo وَکُنَّا نَخُوضُ مَعَ الْخَائِضِیْنَo وَکُنَّا نُکَذِّبُ بِیَوْمِ الدِّیْنِo حَتَّی أَتَانَا الْیَقِیْنُo ﴾ (المدثر:۴۲تا۴۷)
’’ تم دوزخ میں کیوں جا پڑے؟۔ وہ کہیں گے : ہم نماز نہیں پڑھتے تھے۔ اور نہ فقیروں کو کھانا کھلاتے تھے۔ اور اہلِ باطل کے ساتھ مل کر (حق سے) انکار کرتے تھے۔ اور روزِ جزاء کو جھٹلاتے تھے۔ یہاں تک کہ ہمیں موت آگئی۔‘‘
تکلیف (حکم شرعی نافذہونے ) کے موانع :
حکم شرعی کا مکلف ٹھہرائے جانے کے لیے کچھ رکاوٹیں (موانع ) ہیں ‘ جن میں سے :
جہالت ‘ نسیان اور اکراہ بھی ہیں ۔ اس کی دلیل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے :
((إن اللّٰہ تجاو ز عن أمتي الخطأ ‘ و النسیان ‘ وما استکرھوا علیہ۔))[1]
’’ بیشک اللہ تعالیٰ نے میری امت کو معاف رکھا ہے خطا سے ‘ نسیان سے ‘ اور جس چیز پر انہیں مجبور کیا جائے ۔‘‘
[1] رواہ ابن ماجہ (۲۰۴۳؛ ۲۰۴۵) کتاب الطلاق ‘۱۶- باب الطلاق المکرہ و الناسی‘‘۔ و البہیقي (۶/۸۴) کتاب الإقرار؛ باب من لا یجوز إقرارہ۔قال العجلوني في کشف الخفاء ‘‘ (۱/۵۳۳/۱۳۹۳) حسنہ النووي في الروضۃ و الأربعین۔ وجوّدہ اسنادہ ابن کثیر في ’’ تحفۃ الطالب(۱/۲۷۱/۱۵۸)۔