کتاب: اصول فقہ(عثیمین) - صفحہ 45
اور ہمارے قول :’’ عاقل ‘‘ سے مجنوں اور دیوانہ خارج ہوئے۔ انہیں امر اور نہی سے مکلف نہیں ٹھہرایا جائے گا۔ لیکن انہیں ایسے کام سے روکا جائے گا جس میں غیر پر تعدی (ظلم ) یا اسے فاسد /خراب کرنے کا خطرہ ہو۔ اگر اس نے کوئی مامور بہ کام کیا تو صحیح نہ ہوگا ، کیونکہ اس کا ارادہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا نہیں ہے۔ یہ قانون بچے اور مجنون کے مال میں زکوات کے واجب ہونے اور دیگر مالی حقوق پر وارد نہیں ہوگا۔ کیونکہ ان کا واجب ہونا دیگر متعین اسباب سے مربوط ہے۔ جب بھی یہ اسباب پائے جائیں گے ‘ تو ان کے لیے حکم ثابت ہوگا۔ کیونکہ ان کے لیے سبب کی طرف دیکھا جائے گا نہ کہ فاعل کی طرف۔ امر اور نہی سے مکلف ٹھہرایا جانا مسلمان اور کافر سب کے لیے برابر شامل ہے۔ مگر کافر کا مامور بہ فعل اس وقت تک صحیح نہیں ہوگا جب تک وہ حالت کفر میں ہے ‘ اس لیے کہ فرمانِ الٰہی ہے: ﴿ وَمَا مَنَعَہُمْ أَن تُقْبَلَ مِنْہُمْ نَفَقَاتُہُمْ إِلاَّ أَنَّہُمْ کَفَرُواْ بِاللّہِ وَبِرَسُولِہِ ﴾ (التوبہ:۵۴) ’’اور ان کے خرچ (اموال) کے قبول ہونے سے کوئی چیز مانع نہیں ہوئی سوائے اس کے کہ انہوں نے اللہ سے اور اس کے رسول سے کفر کیا ۔‘‘ اور نہ ہی اسے اسلام لانے کے بعد اس کی قضا کا حکم دیا جائے گا، اس لیے کہ فرمان ِ الٰہی ہے : ﴿قُل لِلَّذِیْنَ کَفَرُواْ إِنْ یَّنْتَہُواْ یُغَفَرْ لَہُم مَّا قَدْ سَلَفَ﴾ (الانفال:۳۸) ’’ (اے پیغمبر!) کفار سے کہہ دو کہ اگر وہ اپنے افعال سے باز آجائیں تو جو ہوچکا وہ اُنہیں معاف کر دیا جائے گا۔‘‘ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے لیے یہ فرمان : ((أما علمت یا عمرو ! أن الإسلام یھدم ما کان قبلہ۔))[1]
[1] رواہ مسلم (۱۲۱) کتاب الإیمان‘ ۵۴-باب کون الإسلام یہدم ما کان قبلہ و کذلک الہجرۃ والحج۔