کتاب: اصول فقہ(عثیمین) - صفحہ 42
’’سو جو چیز تم کو پیغمبر دیں وہ لے لو اور جس سے منع کریں (اس سے) باز رہو۔‘‘
سو جس چیز سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا ہے اس سے رک جانے کا حکم اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ اس سے رک جانا واجب ہے۔ اس کے لوازمات میں سے یہ ہے کہ وہ فعل حرام ہے۔‘‘[1]
اور اس بات کے دلائل کہ نہی فساد کا تقاضا کرتی ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
((من عمل عملاً ما لیس علیہ أمرنا فہو رد۔))[2]
’’ جس نے کوئی ایسا کام کیا جس کا ہم نے حکم نہیں دیا وہ مردود ہے ۔‘‘
یعنی [مردودہے]ناقابل قبول ہے۔ اور جس چیز سے منع کیا گیا ہواس کے کرنے کا حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہوسکتا ‘ لہٰذا اس کا کرنا مردود اور ناقابل قبول ہے۔
یہ منہی عنہ کے بارے میں مذہب (حنابلہ ) میں قاعدہ ہے کہ کیا یہ فعل تحریم کیساتھ باطل ہوگا یا صحیح ہوگا ؟، ایسے ہے :
۱: اگر نہی منہی عنہ کی ذات کی طرف لوٹتی ہو ‘ یا اس کی شرط کی طرف ، تو یہ باطل ہوگی(خواہ یہ عبادت میں ہو یا معاملات میں )۔ [3]
۲: یہ کہ نہی کسی خارجی امر کی طرف لوٹتی ہو،جس کا تعلق منہی عنہ کی ذات سے نہ ہو‘ اورنہ ہی اس کی شرط ہو‘ تو اس وقت یہ باطل نہیں ہوگا۔ [4]
[1] بعض علماء کہتے ہیں کہ نہی حرام ہونے کا تقاضا نہیں کرتی ‘ بلکہ اس کا تقاضا کراہت ہے کیونکہ کسی چیز میں اصل اس سے برأت ہے ۔
[2] مسلم (۱۷۱۸) باب الأقضیۃ ‘۸- باب نقض الأحکام الباطلۃ ورد المحدثات الأمور۔
[3] اس کا سبب یہ ہے کہ :اگر آپ اس چیز کو صحیح کہیں گے‘تو یہ اللہ تعالیٰ کے حکم کا الٹ ہوگا ۔ کیونکہ جب اللہ تعالیٰ کسی چیز سے منع کرتے ہیں تو اس سے مقصود یہ ہوتا ہے کہ یہ کام نہ ہو؛ اگرچہ وہ مسلمانوں میں نہ پایا جاتا ہو۔اور جب ہم اسے صحیح کہیں گے تو اس کا تقاضا یہ ہے کہ وہ موجود اور ثابت ہو‘ تو یہ اللہ تعالیٰ کی مراد کے مخالف ہے ‘ جس کی وجہ سے اس نے کسی چیز سے منع کیا ہے ۔
[4] وہ کہتے ہیں کہ شرط مشروط کی صحت پر موقوف ہوتی ہے؛ جب ہم مشروط کو منہی عنہ کی شرط کی بقاء کے ساتھ صحیح کہیں گے ‘ تو اس کا معنی یہ ہوا کہ ہم اس کے لیے اس عمل /فعل کو جائز کہہ رہے ہیں ۔ اس میں علماء کرام کا اختلاف ہے۔